پاکستان

عدالتی فیصلوں میں تاخیر عوامی اعتماد کو مجروح، کمزور افراد کو نقصان پہنچاتی ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے عدلیہ کے تمام درجوں میں فیصلوں میں تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی روش عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے، قانون کی حکمرانی کو کمزور بناتی ہے اور خاص طور پر ان کمزور اور بے سہارا افراد کو نقصان پہنچاتی ہے جو طویل مقدمہ بازی برداشت نہیں کرسکتے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فیصلوں میں تاخیر شدید معاشی اور سماجی اثرات مرتب کرتی ہے، یہ سرمایہ کاری کو روکتی ہے، معاہدوں کو بے معنی بنادیتی ہے، اور عدلیہ کی ادارہ جاتی ساکھ کو کمزور کرتی ہے۔

یہ ریمارکس انہوں نے 2 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے دیے، جس میں جسٹس عائشہ اے ملک بھی شامل تھیں، بینچ عبدالاسلام خان کی اپیل سن رہا تھا، جنہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے 3 نومبر 2021 کے اپنے مؤقف کے خلاف فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

جج نے تجویز دی کہ عمر ٹریکنگ پروٹوکولز متعارف کرائے جائیں تاکہ غیر فعال مقدمات کی خودکار شناخت ہو سکے، اور ساتھ ہی مقدمات کے شیڈول اور ترجیحی ترتیب میں مدد کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ٹولز کا محتاط استعمال کیا جائے، تاہم عدالتی صوابدید کو محفوظ رکھا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا کہ ایسا نظام کم از کم یہ یقینی بنائے کہ مقدمات کو بر وقت اور غیر امتیازی بنیاد پر فکس کیا جائے، قطار توڑنے اور خصوصی شیڈولنگ کو ختم کیا جائے، انفرادی دعوؤں کے بروقت فیصلوں پر سمجھوتہ کیے بغیر آئینی، معاشی یا قومی اہمیت کے معاملات کو ترجیح دی جائے۔

یہ مقدمہ ایک غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی کے خلاف چیلنج سے شروع ہوا، جو ایک بینک نے 26 اپریل 2010 کے مالیاتی ڈگری کے نفاذ میں کی تھی، نیلامی 2011 میں ہوئی، درخواست گزار نے اسی سال اعتراضات دائر کیے جو خارج ہوگئے، پشاور ہائی کورٹ میں اپیل 10 سال زیر التوا رہی اور بالآخر 2021 میں فیصلہ آیا، معاملہ 2022 میں سپریم کورٹ تک پہنچا اور اب 2025 میں 3 سال بعد سنا گیا۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ معاملہ صرف نیلامی کی قانونی حیثیت تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ بھی دیکھنا تھا کہ کیا 14 سال بعد کوئی بامعنی ریلیف دیا جاسکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواست گزار کا مؤقف درست بھی ہوتا، وقت کے بہاؤ نے اس کی افادیت کو تقریباً ختم کر دیا تھا۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کردی، لیکن کہا کہ عدالتی نظام کی ساکھ صرف فیصلوں کی منصفانہ نوعیت پر ہی نہیں بلکہ ان کے بروقت ہونے پر بھی قائم ہے، یہ معاملہ محض انتظامی نہیں بلکہ آئینی ہے، کیوں کہ آئین کے آرٹیکلز 4، 9 اور 10-اے انصاف تک رسائی کا حق فراہم کرتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ حق منصفانہ اور بر وقت سماعت پر محیط ہے، اور وہ تاخیر جو کسی مؤثر ریلیف کو بے اثر کردے، دراصل انصاف سے محرومی کے مترادف ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے زور دیا کہ انصاف کے حقیقی ہونے کے لیے، اسے منصفانہ اور بروقت بھی ہونا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

Back to top button