
ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو تیسرا ون ڈے 202 رنز کے بھاری مارجن سے ہراکر 34 سال بعد ون ڈے سیریز جیت لی، 295 رنزہدف کے تعاقب میں پاکستان کے 4 کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہوئے، بانوے رنز پر پوری ٹیم ڈھیر ہوگئی۔
ڈان نیوز کے مطابق ویسٹ انڈیز نے تیسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان کو شکست دے کر سیریز دو ایک سے اپنے نام کرلی، ویسٹ انڈیز نے 34 برس بعد پاکستان کے خلاف ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کی ہے۔
تاروبا میں ویسٹ انڈیز نے پہلے کھیلتے ہوئے 50 اوورز میں 294 رنز اسکور کیے، شائے ہوپ نے 120 جسٹن گریوز نے 43 رنز بنائے، جواب میں پاکستان کی ٹیم صرف 92 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
سلمان آغا 30 رنز بناکر نمایاں رہے, پاکستان کے 8 بیٹسمین ڈبل فیگر میں بھی داخل نہیں ہوسکے، ویسٹ انڈیز کے جیڈن سیلز نے 6 وکٹیں لیں۔
جیڈن سیلز کی 6 وکٹوں کی شاندار کارکردگی (جو ون ڈے انٹرنیشنل میں کسی ویسٹ انڈین باؤلر کی دوسری بہترین کارکردگی ہے) اور شائے ہوپ کی ناقابلِ شکست سنچری نے پاکستان کو دونوں اننگز میں بے بس کر دیا۔
ویسٹ انڈیز کو بظاہر ایک مشکل وکٹ پر اسپنر باؤلرز کے خلاف رنز بنانے میں دشواری پیش آئی، اور محمد رضوان نے موقع پا کر اپنے پانچویں باؤلر کے اوورز پورے کرائے۔
لگتا تھا کہ ویسٹ انڈیز نے ایک بڑے اسکور کے بجائے محتاط بیٹنگ کا انتخاب کیا ہے تاکہ وکٹیں محفوظ رہیں، لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 44ویں اوور کے آغاز تک وہ 200 کے ہندسے کو بھی نہیں پہنچ سکے۔
لیکن 44 ویں اوور کی پہلی گیند پر ہوپ نے محمد نواز کو لانگ آن کے اوپر سے چھکا رسید کیا، اور اس کے ساتھ ہی 200 رنز مکمل ہوئے، اگلی گیند پر ایک اور چھکے نے اُن کی نیت واضح کر دی، اور پاکستان دیکھتا رہ گیا کہ کس طرح ویسٹ انڈیز نے یکدم تیزی پکڑ لی اور ایک کے بعد ایک کاری وار کرنے لگے۔
رضوان نے فوراً ابرار احمد کو واپس اٹیک پر بلایا، جو اپنے پہلے 6 اوورز میں صرف 5 رنز دیے تھے، لیکن ویسٹ انڈیز کے کپتان نے اپنی بیٹنگ کو ایک نئے گیئر میں ڈال دیا، اور ابرار کے اوور میں 18 رنز بنا ڈالے۔
دوسری طرف جسٹن گریوز نے بھی حسن علی کو آڑے ہاتھوں لیا، نسیم شاہ نے راسٹن چیز کو آؤٹ کرنے والے ریورس سوئنگ یارکرز آزمانے کی کوشش کی، مگر ہوپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا، وہ ایک شاندار کور ڈرائیو کے ساتھ اپنی سنچری مکمل کر گئے، اور ویسٹ انڈیز کی تاریخ میں سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے کھلاڑیوں میں تیسرے نمبر پر آ گئے۔
آخری 7 اوورز میں 100 رنز بنے، آخری گیند پر جب انہوں نے حسن علی کو تھرڈ مین کے اوپر سے باؤنڈری ماری، تو پاکستان کے کھلاڑی مایوسی کے عالم میں واپس لوٹے۔
پاکستان کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو پہلے ہی اوور میں صائم ایوب آف اسٹمپ کے باہر گیند پر سلپ میں کیچ دے بیٹھے، عبدﷲ شفیق بھی بغیر کوئی رن بنائے سیلز کی بھاری گیند پر مڈ آن پر کیچ آؤٹ ہوئے۔
لیکن تیسری وکٹ دن کی سب سے خاص گیند تھی، رضوان (جو باؤلرز کے لیے لمبائی سیٹ کرنا مشکل بناتے ہیں) نے ایک ہارڈ لینتھ گیند کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا، مگر گیند ہلکا سا واپس آئی اور آف بیل کو ہلکے سے چھو کر گرا گئی، اسٹمپس کو چھوئے بغیر بیل گرنا ایک نایاب منظر تھا۔
پاکستان کی آخری امید بابر اعظم پر تھی، مگر وہ بھی سنگل ہندسوں میں ایل بی ڈبلیو ہو گئے، اور اسکور 23 پر 4 وکٹیں گر چکی تھیں۔
یہ سب کچھ اس وقت بھی نہیں بدلا جب چوتھی وکٹ گری، سلمان آغا اور حسن نواز کی کوشش صرف ہر اوور میں چند سنگلز چرانے تک محدود رہی، چاہے اس سے یہ پہلے سے ہی ناممکن سا ہدف مزید ناقابلِ حصول ہو جاتا، کیوں کہ مطلوبہ رن ریٹ تیزی سے بڑھ رہا تھا۔
یہ حقیقت بھی زیادہ معنی نہیں رکھتی تھی کہ پاکستان نے بظاہر بیٹنگ کی گہرائی بڑھانے کے لیے اپنی ٹیم سے مستقل باؤلرز نکال دیے تھے، انہیں معلوم تھا کہ وہ ویسے بھی یہ ہدف حاصل نہیں کر پائیں گے، اور جب موٹی اور چیس کی اسپن باؤلنگ نے دونوں کو جلد ہی پویلین بھیج دیا تو ویسٹ انڈیز کو جیت قریب نظر آنے لگی۔
اختتامی وار کرنے کی ذمہ داری انہوں نے سیلز کو دی، جس نے نسیم اور حسن علی کو تیزی سے آؤٹ کیا۔
پھر ابرار نے ایک رن لینے کی کوشش کی جو بالکل ممکن نہیں تھی، چیس نے براہِ راست تھرو سے انہیں آؤٹ کر دیا، اور اس تیزی نے سیلز کو مردوں کی ون ڈے کرکٹ میں ویسٹ انڈین باؤلر کی بہترین باؤلنگ کی کارکردگی والا دوسرا باؤلر بنا دیا۔
نوجوان فاسٹ باؤلر کی شاندار باؤلنگ کے باوجود، پاکستان نے اپنی شکست میں آخری کردار خود ادا کیا۔