
سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر آئینی بینچ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر کر دی، جس میں وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں دائرکردہ درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 59 فور کو کالعدم قرار دیا تھا، پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ 9 اور 10 مئی حملوں کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا تھا، 7 مئی کو آئینی بینچ نے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جواد ایس خواجہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ نظر ثانی دائر کرنے کا اختیار عدالتی فیصلے میں غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ہوتا ہے، آئینی بینچ نے ایف بی علی کیس پر غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس پر بھی غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا، آئینی بینچ نے شاہدہ شاہدہ ظہیر عباسی کیس پر بھی غلط انحصار کیا۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کا حق محفوظ رہتا ہے، ساتھ ہی آئینی بینچ نے پارلیمنٹ کو اپیل کے حق کیلئے قانون سازی کا حکم بھی دیا، آئینی بینچ کی آبزرویشن اور احکامات آپس میں متضاد ہیں۔
مزید کہا گیا کہ آئینی بینچ نے آزادانہ اپیل کا حق فراہم کرنے کا حکم دے کر تسلیم کیا کہ فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بنیادی آئینی حقوق سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دینا عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے اور عدالتیں اس ذمہ داری کو ترک کرکے معاملات پارلیمان کو نہیں سونپ سکتیں۔
مزید کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے بتائے گئے 9 اور 10 مئی کے واقعات کا ذکر کیا، ان واقعات کے مقدمات انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست میں کہا ہے کہ آئینی بینچ اپنے فیصلے میں اس قسم کے متعصبانہ ریمارکس شامل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا ہے کہ سات رکنی آئینی بینچ میں شامل دو ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا،مرکزی کیس میں چار ججز جبکہ اپیل میں دو ججز نے قرار دے دیا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم پہلے ہی اداروں کی جانب سے اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے پر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، آئینی بینچ کے فیصلے سے یہ ثاثر ہمیشہ کیلئے قائم ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کا جج بننا قبول کرلیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر ملٹری ٹرائل آزاد اور آئینی ہے تو پھر پورا سول جوڈیشل سسٹم ہی ایگزیکٹو کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔
جواد ایس خواجہ نے استدعا کی ہے کہ نظر ثانی درخواست کو منظور کرکے آئینی بینچ کے 7 مئی 2025 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بحال کیا جائے۔