دنیا

اسرائیل کے ریزرو فوجیوں کا غزہ جنگ بندی کے لیے نتن یاہو پر دباؤ

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ مسلسل جاری ہے تاہم اب اس جنگ کی مخالفت میں اسرائیل کے اندر سے ہی کئی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ اس کی حالیہ مثال اسرائیل کی ریزرو فوج کے اہلکاروں کا جنگ بندی کے لیے کھلا خط ہے۔

حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ریزرو فوجیوں نے ایسے خطوط پر دستخط کیے ہیں جن میں وزیرِاعظم بنیامن نتن یاہو کی حکومت سے جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور انھیں ان 59 بقیہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدہ کرنے کا کہا گیا ہے جو تاحال حماس کی قید میں ہیں۔

ان خطوط پر دستخط کرنے والوں میں شامل ڈینی یاتوم سمیت متعدد افراد وزیرِاعظم کے پرانے ناقدین میں سے ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ افراد بھی ہیں جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے قبل شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔

ڈینی یاتوم کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ نتن یاہو کو سب سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہے۔ اُن کی ترجیحات میں سب سے اوپر ان کے مفادات اور اپنی حکومت کو برقرار رکھنا ہے نہ کہ یرغمالیوں کی رہائی۔‘

تقریبا 18 ماہ پہلے بہت کم اسرائیلی ایسے تھے جو جنگ کے جواز پر سوال اٹھاتے تھے اور ان کا مقصد حماس کو شکست دینا اور یرغمالیوں کو واپس لانا تھا۔

جنوری 2025 میں جنگ بندی کے معاہدے اور اس کے بعد 30 سے زائد یرغمالیوں کی واپسی نے بہت سے لوگوں کے لیے یہ امید پیدا کی کہ شاید جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔

لیکن جب اسرائیل نے مارچ کے وسط میں جنگ بندی ختم کر کے دوبارہ لڑائی آغاز کیا تولوگوں کی یہ امیدیں ٹوٹ گئیں۔

سابق خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈینی یاتوم نے اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیل ایک بہت خطرناک سمت کی طرف جا رہا ہے۔‘

تاہم ڈینی یاتوم کا دعویٰ ہے کہ آواز اٹھانے کا مقصد سیاست نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ قومی مفاد میں دستخط کیے ہیں۔ مجھے شدید تشویش ہے کہ میرا ملک اپنے راستے سے بھٹک رہا ہے۔‘

یاد رہے کہ جنگ بندی کے مطالبے سے متعلق پہلا اوپن لیٹر اپریل کے اوائل میں سامنے آیا تھا جس پر تقریبا ایک ہزار فضائیہ کے ریزرو اہلکاروں اور ریٹائرڈ افسران نے دستخط کیے تھے۔

اس مطالبے میں کہا گیا تھا کہ ’جنگ کا جاری رہنا اس کے کسی بھی اعلان کردہ مقصد کو پورا نہیں کرتا اور یہ یرغمالیوں کی ہلاکت کا باعث بنے گا۔‘

دستخط کرنے والوں نے اسرائیلی عوام سے اپیل کی کہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چل کر ان کا ساتھ دیں اس سے پہلے کہ ’غزہ میں موجود ممکنہ طور پر 24 زندہ یرغمالیوں کے پاس وقت کی مہلت ختم ہو جائے۔‘

اس خط میں متنبہ کیا گیا گیا کہ ’ہر گزرتا دن یرغمالیوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ہر لمحہ تاخیر باعثِ شرم ہے۔‘

اس کے بعد آنے والے ہفتوں میں ایلیٹ جنگی یونٹس اور انٹیلیجنس یونٹس سمیت فوج کے تقریباً ہر شعبے یہاں تک کے کئی اعلیٰ اعزاز یافتہ کمانڈرز کی جانب سے بھی اسی نوعیت کے مطالبات پر مشتمل خطوط لکھے گئے۔

اب تک 12,000 سے زائد افراد ان خطوط پر دستخط کر چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button