
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اربوں ڈالر مالیت کے آن لائن فراڈ کے مراکز ( سائبر اسکیم سینٹرز ) چلانے والے ایشیائی جرائم پیشہ نیٹ ورکس دنیا بھر میں اپنی کارروائیاں بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ نئے متاثرین اور منی لانڈرنگ کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق چینی اور جنوب مشرقی ایشیائی گینگ سالانہ اربوں ڈالر کما رہے ہیں اور سرمایہ کاری، کریپٹو کرنسی، رومانس اور آن لائن فراڈ کے دیگر طریقوں کے ذریعے متاثرین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس مقصد کے لیے یہ جرائم پیشہ گینگ بہتر مستقبل کی تلاش میں غیرقانونی راستوں سے ان خطوں میں پہنچنے والے یا پہنچائے گئے افراد کی فوج سے جبراً کام لے رہے ہیں جنہیں گندی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔
یہ سرگرمیاں بڑی حد تک میانمار کے قانون سے مبرا سرحدی علاقوں اور کمبوڈیا اور لاؤس میں قائم مشکوک ’ خصوصی اقتصادی زونز ’ میں کی جاتی رہی ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی ) کی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ نیٹ ورک جنوبی امریکا، افریقا، مشرق وسطیٰ، یورپ اور بعض بحرالکاہل کے جزائر میں اپنی کارروائیاں بڑھا رہے ہیں۔
جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے یو این او ڈی سی کے قائم مقام علاقائی نمائندے بینیڈکٹ ہوفمین نے کہا کہ ہم مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منظم جرائم پیشہ گروہوں کی عالمی سطح پر توسیع دیکھ رہے ہیں۔
یو این او ڈی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو 2023 میں سائبر فراڈ سے تخمیناً 37 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جبکہ دنیا بھر میں اس سے کہیں زیادہ نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
یہ سنڈیکیٹس افریقا میں، خاص طور پر زیمبیا، انگولا اور نمیبیا کے ساتھ ساتھ بحرالکاہل کے جزائر جیسے فجی، پلاؤ، ٹونگا اور وانواتو میں بھی پھیل گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئے اڈوں اور نئے متاثرین کی تلاش کے علاوہ، جرائم پیشہ گینگ اپنی غیر قانونی آمدنی کی لانڈنگ کے لیے اپنے دائرہ کار کو وسیع کر رہے ہیں، جس میں ’ جنوبی امریکا کے منشیات کے کارٹلز، اطالوی مافیا، اور منظم آئرش گروہوں اور بہت سے دیگر’ کے ساتھ شراکت داری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی کرپٹو کرنسی مائننگ ان نیٹ ورکس کے لیے منی لانڈرنگ کا ایک ’ طاقتور ذریعہ ’ بن گئی ہے۔
جون 2023 میں، لیبیا کے ملیشیا کے زیر کنٹرول علاقے میں ایک جدید کرپٹو مائننگ آپریشن، جو کہ ہائی پاور کمپیوٹرز اور ہائی وولٹیج کولنگ یونٹس سے لیس تھا، پر چھاپہ مارا گیا اور 50 چینی شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔
سنڈیکیٹس کی کارروائیوں کا عالمی پھیلاؤ جزوی طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں حکام کے دباؤ کی وجہ سے ہوا ہے۔
بیجنگ کی جانب سے اس سال میانمار میں آن لائن فراڈ کے مراکز پر ایک بڑے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم از کم دو درجن ممالک کے تقریباً 7000 کارکنوں کو رہا کرایا گیا۔
لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اگرچہ ایسی کوششیں ان جرائم پیشہ گروہوں کی فوری سرگرمیوں میں خلل ڈالتی ہیں، لیکن وہ پھر کہیں اور منتقل ہوکر اپنی سرگرمیاں ازسر نو شروع کردیتے ہیں۔
یو این او ڈی سی کے بینیڈکٹ ہوفمین نے کہا کہ یہ نیٹ ورکس کینسر کی طرح پھیل رہے ہیں، حکام ایک علاقے سے ان کا صفایا کرتے ہیں مگر پھر یہ دوسرے علاقے میں نمودار ہوجاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق سینکڑوں ہزاروں کارکنوں پر مشتمل افرادی قوت کے ساتھ آن لائن فراڈ کے مراکز کے ساتھ ساتھ، اس صنعت کو نئی تکنیکی ترقی سے مزید تقویت ملتی ہے۔
آپریٹرز نے ادائیگی کی ایپلی کیشنز، انکرپٹڈ میسجنگ پلیٹ فارمز اور کریپٹو کرنسیوں کے ساتھ اپنے آن لائن ایکو سسٹم تیار کیے ہیں، تاکہ ان مرکزی دھارے کے پلیٹ فارمز سے بچا جا سکے جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے نشانہ بنا سکتے ہیں۔