
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے سکیورٹی ایشو کی بجائے سیاسی مسئلہ سمجھا جائے ورنہ یہ فوج اور پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں کے درمیان حل ہو گا۔
بلوچستان میں اپنے آبائی گاؤں وڈھ سے کوئٹہ تک مارچ کا آغاز کرنے سے چند روز قبل کراچی میں ایک خصوصی انٹرویو میں اختر مینگل کا مزید کہنا تھا کہ انھیں پاکستان کے پارلیمانی نظام میں یکسانیت نظر نہیں آتی۔ ’20 سال پہلے کے پارلیمانی نظام اور موجودہ نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے، موجودہ پارلیمانی نظام میں مجھے کوئی مثبت تبدیلیاں نظر نہیں آتیں، اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ پارلیمانی سیاست میں کوئی گنجائش باقی ہے۔‘
گذشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں خضدار سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی کی اپنی اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے واحد منتخب رُکن قومی اسمبلی تھے۔
قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کو لکھے گئے اپنے خط میں انھوں نے اپنے مستعفی ہونے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بلوچستان کی موجودہ صورتحال نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔‘ تاہم سپیکر کی جانب سے ان کا استعفی فی الحال قبول نہیں کیا گیا ہے۔
گذشہ دنوں سردار اختر مینگل نے ماہ رنگ بلوچ، سمی دین محمد اور دیگر بلوچ خواتین کی گرفتاریوں کے خلاف اپنے آبائی گاؤں وڈھ سے کوئٹہ تک مارچ کا آغاز کیا تھا۔ انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے انھیں راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے روکا گیا تھا اور اِسی دوران اُن کے مارچ میں ایک خودکش بم حملہ بھی ہوا تھا۔
سردار اختر مینگل کی قیادت میں وڈھ سے چلنے والا یہ قافلہ فی الحال کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے لکپاس میں گذشتہ آٹھ دن سے موجود ہے۔
جمعرات (تین اپریل) کی شب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک پیغام میں اختر مینگل نے اعلان کیا ہے کہ وہ 6 اپریل (اتوار) کی صبح دوبارہ کوئٹہ کی جانب اپنے مارچ کا آغاز کریں گے۔ اُن کے مطابق انھوں نے بارہا حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اُن کی بات نہیں سُنی گئی اور اب ‘کوئٹہ کی گلیوں میں ہماری آواز گونجے گی۔’