
روسی صدر ولادیمیر پوتن یوکرین میں’ عبوری انتظامیہ’ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عہد کیا ہے کہ روسی فوج یوکرینی فوجیوں کا ’ خاتمہ’ کر دے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے اے ایف کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر کی جانب سے یہ سخت تبصرہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس اور یوکرین درمیان جنگ بندی کے لیے سرگرم ہیں۔
ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان قربت اور امریکی رہنما کی جانب سے کیف کی حمایت روکنے کی دھمکیوں نے پوتن کے اعتماد کو مضبوط کیا ہے، یہ اعتماد تین سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران مضبوط ہوا ہے جس میں دونوں طرف سے لاکھوں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت کو گرانے کے اس نئے مطالبے سے ولادیمیر پوتن کی کیف میں ماسکو نواز حکومت قائم کرنے کی دیرینہ خواہش ایک بار پھر ظاہر ہوئی ہے۔
جمعہ کے روز علی الصبح آرکٹک فورم کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ روس اقوام متحدہ کے زیر اہتمام امریکا، یورپ اور ماسکو کے اتحادیوں کے ساتھ یوکرین میں عبوری انتظامیہ قائم کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کر سکتا ہے۔
پوتن نےاپنے مطالبے کا جواز بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مطالبے پر عمل درآمد سے ایک جمہوری صدارتی انتخاب کا انعقاد ہوگا جس کے نتیجے میں ایک قابل حکومت اقتدار میں آئے گی جس کو عوام کا اعتماد حاصل ہوگا، اور پھر ان حکام کے ساتھ امن معاہدے پر مذاکرات شروع کیے جائیں گے اور جائز دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ 2022 میں یوکرین پر حملے کا آغاز کرتے وقت، ماسکو کا مقصد چند دنوں میں کیف پر قبضہ کرنا تھا لیکن یوکرین کی چھوٹی فوج نے اسے پسپا کر دیا۔
پوتن نے یوکرین کے جرنیلوں سے زیلنسکی کی حکومت گرانے کے لیے ایک عوامی مطالبہ بھی جاری کیا، جن کی پوتن نے بار بار، بغیر کسی ثبوت کے، نیو نازی اور منشیات کا عادی کہہ کر تضحیک کی ہے۔
ماسکو نے زیلنسکی کے یوکرین کے حکمران کے طور پر برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھایا ہے کیونکہ ان کی ابتدائی پانچ سالہ مدت مئی 2024 میں ختم ہو گئی تھی۔
یوکرینی قانون کے تحت، بڑے فوجی تنازعات کے دوران انتخابات معطل کردیے جاتے ہیں، اور زیلنسکی کے ملکی مخالفین نے بھی کہا ہے کہ تنازعہ ختم ہونے تک انتخابات نہیں ہونے چاہیئں۔