
مرزا عبدالعلیم بیگ
مصنوعی ذہانت ـ داخلے جاری ہیں۔ یہ آوازیں آج پاکستان کے تعلیمی منظرنامے میں عام ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا اشتہارات سے لے کر شہر کے چوراہوں تک، ہر جگہ جامعات اور انسٹیٹیوٹس کی تشہیر ایک بازار کے شور میں بدل چکی ہے۔ اور سب سے نمایاں لفظ؟ "Artificial Intelligence”۔ مصنوعی ذہانت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ـ مگر علم کا نہیں، رجحان کا۔ جامعات اور نجی ادارے مصنوعی ذہانت ، ڈیٹا سائنس ، سائبر سیکیورٹی اور روبوٹکس جیسے جدید ترین مضامین کو پیکیج ڈیل کی طرح پیش کر رہے ہیں، جیسے علم نہیں، کوئی سیل چل رہی ہو۔ داخلہ مہمات اس قدر جارحانہ ہو چکی ہیں کہ لگتا ہے گویا تعلیمی ادارے اب علم کے مراکز نہیں، مارکیٹنگ ایجنسیز بن چکے ہیں۔
یہ سب دیکھ کر ایک تلخ سوال ابھرتا ہے: کیا پاکستان واقعی علم میں انقلاب لا رہا ہے؟ یا یہ صرف تعلیمی معیشت کی نئی قسط ہے، جو بغیر منصوبہ بندی کے خطرناک نتائج کی طرف بڑھ رہی ہے؟ پاکستان میں مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجیز کی تعلیم میں اضافہ خوش آئند ضرور ہے، مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ رجحان سوچے سمجھے تعلیمی و تحقیقی وژن کے بغیر اپنایا جا رہا ہے۔ بیشتر جامعات نہ تو اساتذہ کے لحاظ سے تیار ہیں، نہ ہی انفراسٹرکچر کے لحاظ سے۔ کئی اداروں میں مصنوعی ذہانت پڑھانے والے خود چند آن لائن کورسز کے سہارے طلبا کو مستقبل کے خواب دکھا رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں نے بغیر انڈسٹری لنکج، بغیر تحقیقی ماحول، اور بغیر کسی طویل المدتی پالیسی کے صرف ڈگری کو جنسِ بازار بنا دیا ہے۔
عالمی رجحانات کی نقالی میں دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس کا چرچا دیکھ کر پاکستانی جامعات نے بھی جلدی میں AI ڈیپارٹمنٹ کھول دیے ـ بغیر یہ سوچے کہ طلبا کو ان سے نوکری یا قابلیت حاصل ہوگی یا نہیں۔ سرکاری فنڈنگ میں کمی کے بعد جامعات فیسوں پر چلنے لگیں، اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبے زیادہ طلبہ کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے انہیں ترجیح دی گئی۔ جدید نوجوان طبقہ لفظ "Artificial Intelligence” سے متاثر ہے، چاہے اسے مفہوم کا علم نہ ہو۔ جامعات اس کمزوری کو کیش کر رہی ہیں۔
سینکڑوں طلبا ہر سال ایسی ڈگریاں لے رہے ہیں جن کا نہ انڈسٹری سے ربط ہے، نہ عملی تربیت۔ اساتذہ کی قلت، مستعار شدہ سلیبس، اور غیر معیاری پراجیکٹس تعلیمی معیار کو گرا رہے ہیں۔ طلبا کو صرف "Buzzwords” یاد کرائے جا رہے ہیںPython ، ChatGPT، Machine Learning مگر سوچنے، تخلیق کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کی جا رہی۔
جو افراد ماضی میں منصبِ پیغمبری کے وارث سمجھے جاتے تھے، آج وہی استاد سوشل میڈیا پر داخلہ لے لو کی دہائی دے رہے ہیں۔ جب جامعات اساتذہ کو صرف وقتی کورس کنٹریکٹ پر رکھیں گی، جب تنخواہیں 6 ماہ بعد آئیں گی، اور جب تعلیم کاروبار بن جائے گا، تو علم کا احترام خاک میں ملنا کوئی انہونی بات نہیں۔
ریاست خاموش ہے۔ نہ AI ایجوکیشن کے لیے کوئی جامع قومی پالیسی ہے، نہ ہی جامعات کی کوالٹی کنٹرول کا سخت نظام۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی پالیسیاں متزلزل ہیں، اور اکثر Reactive ہوتی ہیں، نہ کہProactive ۔ ریاست صرف اعلان کرتی ہے: پاکستان کو AI میں لیڈنگ ملک بنائیں گے! مگر اس کے لیے بجٹ؟ وسائل؟ تربیت یافتہ اساتذہ؟ سب گمشدہ۔
"داخلہ لے لو” کا نعرہ درحقیقت ایک مرثیہ ہے ـ اس تعلیم کا، جو بامقصد تھی۔ اساتذہ کا، جنہیں رول ماڈل سمجھا جاتا تھا۔ اور اس معاشرے کا، جو سوچتا تھا کہ تعلیم ہی انقلاب لاتی ہے۔ مگر آج علم ڈگری میں قید ہے، ڈگری فیس میں، اور فیس ایک اشتہار میں جس میں لکھا ہوتا ہے: "داخلہ لے لو!”