
تحریر: محمد محسن اقبال
1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے وطنِ عزیز کے وہ بیٹے اور بیٹیاں جو دیارِ غیر میں آباد ہوئے، اپنے ملک کے ساتھ گہری وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے یہ اوورسیز پاکستانی صرف زرمبادلہ بھیجنے کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ فلاحی کاموں، قومی تشخص کو اجاگر کرنے، سفارتی مہمات اور بحرانوں کے دوران مدد فراہم کرنے جیسے اہم شعبوں میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی کہانی محض بیرونِ ملک ہجرت کی نہیں، بلکہ مستقل خدمات، غیر متزلزل وفاداری اور گہری حب الوطنی کی کہانی ہے۔
1970 کی دہائی میں پاکستان میں خلیجی ممالک کی طرف ہجرت کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، عمان اور بحرین میں پاکستانی مزدوروں کی بڑی تعداد میں آمد ہوئی۔ زیادہ تر غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند افراد نے خلیجی شہروں کی تعمیر میں حصہ لیا اور ساتھ ہی پاکستان میں زرمبادلہ بھیجنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ 1974 میں یہ ترسیلات تقریباً 143 ملین ڈالر تھیں، جو بعد ازاں تیزی سے بڑھیں اور پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرنے لگیں۔
1980 کی دہائی میں یہ رجحان مزید گہرا ہوا۔ خلیج میں پاکستانی کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور زرمبادلہ کی آمدن دو ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر گئی۔ مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ یورپ کی طرف ہجرت میں بھی اضافہ ہوا۔ برطانیہ، ناروے، جرمنی، فرانس، اور اٹلی میں پاکستانی برادریاں منظم ہونے لگیں اور وہاں دوسری (اگلی) نسل کے پاکستانیوں نے جنم لیا۔ صرف برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی ایک بڑی نسلی اقلیت بن چکی تھی۔ انہوں نے نہ صرف ترسیلات بھیجیں بلکہ اپنے آبائی علاقوں میں اسکول، مساجد، اور دیگر فلاحی منصوبے بھی شروع کیے۔
1990 کی دہائی میں یہ سلسلہ مزید متنوع ہو گیا۔ خلیج کے ساتھ ساتھ شمالی امریکہ اور کینیڈا کی جانب بھی پاکستانیوں کی ہجرت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد، آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹرز، اور انجینئرز امریکہ اور کینیڈا میں آباد ہونے لگے۔ اس دہائی کے اختتام تک سالانہ ترسیلات کا حجم 1.2 ارب ڈالر تک پہنچا، اگرچہ اس میں غیر رسمی ذرائع جیسے حوالہ اور ہنڈی کے باعث کمی رہی۔ اوورسیز پاکستانی پاکستان کی سیاست، میڈیا اور عوامی حقوق کے فروغ میں بھی سرگرم ہونے لگے۔
2000 کی دہائی میں مالیاتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔نائن الیون کے بعد سخت بینکاری ضوابط کے تحت زیادہ تر ترسیلات رسمی بینکاری ذرائع سے پاکستان آنے لگیں۔ 2010 تک سالانہ ترسیلات 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ خلیج، برطانیہ، امریکہ، اور کینیڈا میں پاکستانی برادری نہ صرف تعداد میں بڑھی بلکہ بااثر بھی ہو گئی۔ اسی دوران بیرونِ ملک پاکستانیوں نے فلاحی تنظیموں کے ذریعے زلزلہ 2005 اور سیلاب 2010 کے متاثرین کے لیے بھرپور امداد فراہم کی۔ انہوں نے اسپتال، اسکول، سڑکیں بنائیں اور ہنگامی ریلیف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
2010 کی دہائی اور اس کے بعد کا دور اوورسیز پاکستانیوں کے کردار کے اعتبار سے سنہری دور بن گیا۔ دسمبر 2017 میں وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے مطابق دنیا بھر میں 88 لاکھ پاکستانی مقیم تھے، جبکہ 2023 میں وزارتِ امیگریشن اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1990 کے بعد 1 کروڑ 80 لاکھ سے زائد پاکستانی بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چھ ممالک میں شامل ہے جن کا سب سے بڑا ڈائیسپورا موجود ہے۔ 2021 کے مطابق 47 لاکھ سے زائد پاکستانی مشرق وسطیٰ، 16 لاکھ برطانیہ، جبکہ امریکہ، کینیڈا، اور یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔
2022 میں پاکستان نے 31 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات وصول کیں، جو عالمی سطح پر پاکستان کو ترسیلات کے بڑے وصول کنندگان میں شامل کرتی ہے۔ سعودی عرب سے 8 ارب ڈالر، یو اے ای سے 6 ارب ڈالر، برطانیہ سے 4.5 ارب ڈالر، اور امریکہ سے 3 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں۔ آج 90 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا بھر میں آباد ہیں جن میں سے 26 لاکھ سعودی عرب، 15 لاکھ یو اے ای، 15 لاکھ برطانیہ، 12 لاکھ امریکہ، 3 لاکھ کینیڈا، 2 لاکھ اٹلی اور دیگر ہزاروں افراد فرانس، جرمنی، ناروے، اسپین، یونان، آسٹریلیا، ملائیشیا، اور جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔
ترسیلات کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں نے فلاحی میدان میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ سیلاب 2010 و 2022، کورونا وبا اور دیگر قومی بحرانوں میں انہوں نے دل کھول کر امداد دی۔ کئی صاحبِ حیثیت افراد نے پاکستان کا بیرونی قرض اتارنے میں مدد فراہم کی۔ شوکت خانم اسپتال، ایدھی فاؤنڈیشن، انڈس اسپتال، اور کئی یتیم خانے اور اسکول ان کی سخاوت کے گواہ ہیں۔
اسی طرح بیرونِ ملک پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے میں بھی ان کا کردار لائقِ تحسین ہے۔ پروفیشنلز، تعلیمی ماہرین، اور بزنس مین دنیا بھر میں پاکستان کے نمائندے بنے۔ سلیکون ویلی سے لے کر برطانوی پارلیمنٹ، کینیڈین تھنک ٹینکس سے لے کر یورپی فلاحی اداروں تک، پاکستانیوں نے اپنی قابلیت اور وقار سے پاکستان کا نام روشن کیا۔
برطانیہ میں ایک درجن سے زائد برٹش پاکستانی رکنِ پارلیمنٹ رہ چکے ہیں جن میں ساجد جاوید، صادق خان، یاسمین قریشی اور عمران حسین جیسے نام شامل ہیں۔ کینیڈا میں کئی پاکستانی نژاد افراد وفاقی اور صوبائی سطح پر منتخب ہوئے، جب کہ ناروے میں عابد راجہ جیسے سیاستدان وزیر کے منصب تک پہنچے۔ یہ کامیابیاں پاکستانی اقدار، نظم و ضبط اور خدمتِ خلق کی عکاس ہیں۔
تاہم، ان تمام خدمات کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں پالیسی سازی میں مناسب نمائندگی حاصل نہیں۔ وہ طویل عرصے سے ووٹنگ کے حق، سرمایہ کاری میں سہولت، اور حکومتی سرپرستی کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اقدامات کیے گئے، مگر ایک جامع اور ادارہ جاتی ڈائیسپورا پالیسی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے ماضی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مستقبل کے ممکنہ کردار سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی محض زرمبادلہ بھیجنے والے نہیں، بلکہ پاکستان کی معیشت کے خاموش معمار، اس کے اداروں کے بے آواز محسن، اور اس کی کامیابیوں اور سانحات کے گمنام ہیرو ہیں۔ ان کا کردار، جو کہ مخلص، مستقل اور بے لوث ہے، نہ صرف تسلیم کیا جانا چاہیے بلکہ اس کو ایک ادارہ جاتی حیثیت دی جانی چاہیے، کیونکہ کوئی بھی قوم اپنے ان فرزندوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو دنیا بھر میں پھیلے ہونے کے باوجود دل سے اپنے وطن کے لیے دعا گو، کوشاں اور پرامید رہتے ہیں۔