سیاست

جرگوں کا افغان حکومت اور کالعدم تنظیموں سے براہ راست مذاکرات کا مطالبہ

صوبائی حکومت کی جانب سے بلائے گئے مسلسل قبائلی جرگوں میں نام نہاد ’گڈ طالبان‘ اور افغان عبوری حکومت سے براہ راست مذاکرات کے معاملے پر بحث جاری رہی، جب کہ بدھ کو منعقد ہونے والے تیسرے جرگے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عسکری کارروائیوں سے خطے میں امن بحال نہیں ہو سکتا۔

2 اگست سے اب تک ہونے والے اس سلسلے کے تیسرے جرگے میں شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان (بالائی و زیریں)، اور قبائلی سب ڈویژنز وزیر، بٹنی، درازندہ اور جنڈولہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔

شرکا نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں کالعدم تنظیموں اور افغان عبوری حکومت، دونوں سے مذاکرات کیے جائیں تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔

یہ جرگے 24 جولائی کو ہونے والی کثیر الجماعتی کانفرنس کے بعد منعقد ہو رہے ہیں، جس میں سفارش کی گئی تھی کہ ایک گرینڈ جرگے سے قبل، ہر ضلع سے عمائدین، ارکانِ پارلیمان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل چھوٹے چھوٹے جرگے منعقد کیے جائیں تاکہ گرینڈ جرگے کے لیے حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے، گرینڈ جرگے کے لیے ارکان کا انتخاب انہی ابتدائی جرگوں سے کیا جائے گا۔

پہلا علاقائی جرگہ پشاور، اورکزئی، درہ آدم خیل اور حسن خیل سب ڈویژن سے آئے قبائلی عمائدین،علمائے کرام اور نمائندوں پر مشتمل تھا، اس جرگے نے سفارش کی تھی کہ وفاقی حکومت ایک وفد تشکیل دے، جس میں صوبائی حکومت اور قبائلی عمائدین شامل ہوں، جو افغانستان سے مذاکرات کرے اور اس عمل میں معاونت کے لیے مطلوبہ وسائل فراہم کیے جائیں۔

4 اگست کو باجوڑ اور مہمند کے قبائلی اضلاع کے نمائندوں پر مشتمل دوسرا جرگہ منعقد ہوا، اس جرگے نے فوجی کارروائیوں یا جبری بے دخلی کی مخالفت کی اور ایک وسیع البنیاد اور بااختیار جرگے کے قیام کا مطالبہ کیا جس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، قبائلی عمائدین اور دیگر کلیدی فریقین کو شامل کیا جائے تاکہ افغان عوام اور عبوری حکومت سے بامقصد مذاکرات کیے جا سکیں اور خطے سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہو۔

بدھ کو ہونے والے تیسرے جرگے میں بھی یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ امن کے قیام کا راستہ صرف بات چیت ہے، فوجی آپریشن نہیں، جرگے نے پاکستان میں کالعدم تنظیموں اور افغان عبوری حکومت، دونوں سے مذاکرات کا مطالبہ کیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں، اور اس کی تازہ ترین مثال حالیہ ماضی میں دیکھی جا سکتی ہے، جب امریکا اور اس کے اتحادی افغان طالبان کے خلاف 20 سال تک لڑنے کے بعد بالآخر بات چیت کی میز پر آئے‘۔

ذرائع کے مطابق شرکا نے کہا کہ ’ریاست پچھلے 22 برسوں سے عسکریت پسندوں کے خلاف برسرپیکار ہے، کئی فوجی آپریشنز بھی ہو چکے، مگر صورتحال اب بھی بہتر نہیں ہو سکی‘۔

تاہم شرکا نے صوبائی حکومت کے طرزِ عمل پر حیرت کا اظہار کیا کہ خطے میں امن کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے کے مقصد سے بلائے گئے اس اجلاس میں شرکا کو کسی قسم کی سیکیورٹی بریفنگ نہیں دی گئی، بعض شرکا نے ’گُڈ اور بیڈ طالبان‘ کی پالیسی پر بھی اعتراض کیا۔

ذرائع نے شرکا کے حوالے سے کہا کہ’ہم اس پالیسی کو نہیں مانتے, ہم کسی کو بھی قبول نہیں کرتے، اور ریاست کو چاہیے کہ گُڈ طالبان کو بھی لگام دے’۔

ایک اور شریک رکن نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے اجلاس میں کہا کہ صوبائی حکومت عوامی حمایت کے ذریعے اس معاملے کو ’بااختیار حلقوں‘ کے سامنے لے جانا چاہتی ہے، اور عوام ہی ان کی طاقت ہیں۔

جب ڈان نے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ افغان عبوری حکومت سے امن کے لیے بات چیت کرنا صوبائی حکومت کا موقف ہے اور صوبے کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ’وفاقی حکومت اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ فروری میں صوبائی حکومت کی جانب سے افغان عبوری حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار کردہ ٹی او آرز (ٹی او آرز) پر ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہی صورتحال ملک کے کسی اور حصے میں پیش آ رہی ہوتی، تو افغان عبوری حکومت سے بات چیت کا عمل کب کا شروع ہو چکا ہوتا‘۔

Related Articles

جواب دیں

Back to top button