سیاست

فلسطینی بھوکے مر رہے ہیں اور ہم خاموش ہیں، ذوالفقار جونیئر پاکستان کی بے حسی پر افسردہ

فنکار اور سماجی کارکن ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے ایک پُرجوش اور جذباتی ویڈیو پیغام میں فلسطینی عوام کے لیے پاکستان کی طرف سے عملی مدد کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اپنے پیغام میں ذوالفقار بھٹو جونیئر نے ریاستی رویے کو ’مدھم ردعمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام بھی فلسطینیوں کی اذیت سے بے حس ہو چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ ’فلسطین میں لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ یہ قحط قدرتی نہیں، انسانوں کا پیدا کردہ ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ٹک ٹاک پر محصور فلسطینیوں کی طرف سے شیئر کردہ مناظر مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور یہ مناظر اتنے دردناک اور بے ساختہ ہیں کہ ان سے نظریں ہٹانا ممکن نہیں۔

بھٹو جونیئر نے تسلیم کیا کہ پاکستان کی طرف سے چند بیانات جاری ہوئے، لیکن اس کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، حال ہی میں غزہ کے حق میں ہونے والے ایک احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ کوئی مذہبی تنظیم آئی، نہ کوئی شہری تنظیم، لوگ تھک چکے ہیں، بور ہو چکے ہیں‘۔

انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ پاکستانی فلسطین کے حق میں اپنی زبان استعمال کیوں نہیں کر رہے، ان کا کہنا تھا کہ نعرے بھی انگریزی یا عربی میں لگائے جاتے ہیں، اردو کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاہ ’جب یو اے ای، سعودی عرب اور بحرین جیسی ساری مسلم ریاستیں فلسطین کو چھوڑ چکی ہیں، تو ہمارے جیسے ملک کیوں خاموش ہیں؟‘۔

ذوالفقار بھٹو جونیئر نے الزام لگایا کہ پاکستان کی ریاست ’صہیونی ریاست‘ کو تسلیم کرنا چاہتی ہے، اس لیے اپنے لوگوں کو فلسطین کے لیے کھڑا ہونے سے روکا جا رہا ہے۔

غزہ میں حالات اب ناقابلِ تصور حد تک خراب ہو چکے ہیں, اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں۔ خوراک ناپید ہو چکی ہے، اور قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل کے ’ظالمانہ اور غیر قانونی حملے‘ کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن بھٹو کے مطابق الفاظ اور عمل کے درمیان خلا واضح ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ آن لائن غصے یا دوسروں کے نعرے دہرانے سے ہمدردی ثابت نہیں ہوتی،

انہوں نے کہا کہ ’خاموشی، چاہے ادارہ جاتی ہو یا ثقافتی، ایک انتخاب ہے، اور جب یہ خاموشی بھوک، جلاوطنی اور موت کے سامنے ہو، تو یہ مجرمانہ ہوتی ہے‘۔

Related Articles

جواب دیں

Back to top button