بلاگ

پرانی تصویریں، نیا فریم

مرزا عبدالعلیم بیگ
ہمارے ہاں سیاست ایک ایسے شو روم کی مانند ہے جہاں پرانی تصویروں کو بار بار نئے فریم میں سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔ عوام جب بھی اس شو روم میں داخل ہوتے ہیں، انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ سب نیا ہے ـ نئے وعدے، نئے اتحاد، نئے نعرے ـ مگر جب قریب جا کر دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ چہرے وہی ہیں، قصے وہی، اور انجام بھی وہی۔
یہ منظرنامہ محض ایک تمثیل نہیں بلکہ ہمارے سیاسی کلچر کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ جب بھی ملک میں کوئی نیا سیاسی اتحاد بنتا ہے، بڑے دعوے کیے جاتے ہیں، قوم کی تقدیر بدلنے کے نعرے لگتے ہیں، آئین کے تحفظ اور کرپشن کے خاتمے کے وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ مگر جلد ہی عوام کو احساس ہوتا ہے کہ جن شخصیات کو وہ نئے لباس میں دیکھ رہے ہیں، وہی پرانے کردار ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف سب سے سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں اتحاد اور ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے مفاہمتی یا احتجاجی اتحاد زیادہ تر عارضی مفادات اور مخصوص سیاسی مقاصد کے لیے تشکیل پاتے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے اتحاد عوامی مسائل کے حل یا جمہوری اقدار کے فروغ کے بجائے، زیادہ تر اقتدار کے کھیل کا حصہ بنے۔ نتیجتاً عوام کا ان اتحادوں پر اعتماد کم ہوتا گیا، مگر ہر بار نیا نعرہ اور نیا فریم لگا کر وہی پرانی تصویر دوبارہ پیش کر دی جاتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ عوام بھی اس کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔ سیاسی یادداشت کمزور ہے، یا شاید جان بوجھ کر کمزور کر دی گئی ہے۔ ہر نیا اتحاد تاریخی قرار پاتا ہے، ہر نعرہ نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور ہر جلسہ ایسے ہوتا ہے جیسے کل ہی سب کچھ بدلنے والا ہے۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد وہی مسائل، وہی محرومیاں، اور وہی وعدہ خلافیاں لوٹ آتی ہیں۔
سیاسی قیادت کے اس رویے نے عوامی شعور پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ جب قیادت اصول اور نظریے سے زیادہ وقتی مصلحت اور ذاتی مفاد کو ترجیح دے، تو جمہوریت کا ڈھانچہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ اس کھوکھلے پن کو عارضی جوش اور نعروں سے وقتی سہارا تو دیا جا سکتا ہے، مگر اسے پائیدار بنیادوں پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام سیاست کو شو روم کی رنگین روشنیوں کے بجائے حقیقت کی کڑی دھوپ میں پرکھیں۔ نئے فریم کے چمکدار کناروں سے نظر ہٹا کر تصویر کے اصل خدوخال دیکھیں۔ اتحاد کے نعروں سے زیادہ، اس اتحاد کے ایجنڈے اور ماضی کے کرداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں۔ جب تک یہ سوالات عوامی بیانیے کا حصہ نہیں بنتے، پرانی تصویریں نئے فریم میں پیش ہوتی رہیں گی، اور انجام بھی وہی پرانا ہوگا۔
آخرکار، جمہوریت کا تحفظ آئین کے چند آرٹیکلز یا عدالت کے چند فیصلوں سے نہیں بلکہ عوام کے اجتماعی شعور سے ہوتا ہے۔ اور شعور تب ہی بیدار ہوگا جب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ اصل تبدیلی نئے فریم میں نہیں، تصویر بدلنے میں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

Back to top button