
’ہمارے دور کا ہولوکاسٹ: نسل کشی اور گریٹ گیم‘ کے عنوان سے ایک مکالمے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صیہونی ریاست اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے، جہاں ہزاروں افراد بشمول خواتین اور بچے قتل کیے جا چکے ہیں، اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
مکالمے میں کہا گیا کہ اسرائیل فلسطینی سرزمین پر قبضے کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے، جو اس کے نام نہاد منصوبے ’گریٹر اسرائیل‘ کا حصہ ہے۔
ان خیالات کا اظہار سینئر صحافیوں وسعت اللہ خان اور ضرار کھوڑو نے دی سیکنڈ فلور (T2F) میں اپنے ایک خطاب میں کیا۔
انہوں نے اسرائیل کے جاری حملے کی مذمت کی، مغربی ممالک اور بین الاقوامی میڈیا کے ’شرم ناک‘ ردعمل پر تنقید کی، اور مسلم ممالک کے منافقانہ رویے کو ہدف تنقید بنایا کہ انہوں نے بیانات تو دیے مگر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا، جس سے بے گناہ شہریوں کے قتلِ عام کو روکا جا سکے۔
ضرار کھوڑو نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف اپنی کارروائیاں روکنے والا نہیں اور چائنا کٹنگ کی حکمت عملی کے ذریعے مزید زمین پر قبضہ کرتا جائے گا، انہوں نے خبردار کیا کہ خطرناک بات یہ ہے کہ اسرائیل صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اپنی سرحدیں واضح ہی نہیں کیں، خطے کے دیگر ممالک کو بھی مستقبل میں ایسی ہی جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جب ایک سامع نے رائے دی کہ اگر فلسطینی اقوامِ متحدہ کی زمین کی تقسیم کی قراردادوں کو قبول کر لیتے تو شاید حالات مختلف ہوتے، تو ضرار کھوڑو نے جواب دیا کہ ایسا کرنے سے بھی کوئی خاص فرق نہ پڑتا، کیونکہ اسرائیل پھر بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھتا۔
وسعت اللہ خان نے ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ میں شائع ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی منصوبے کے مطابق اسرائیل کو ایک ’علاقائی سپر پاور‘ بننا ہے، ایسی طاقت جس سے آس پاس کے ممالک یا تو ڈریں یا پھر تسلیم کریں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی، خاص طور پر سخت گیر صیہونی، مغربی کنارے کو (جسے مذہبی متون میں ’یہودیہ اور سامریہ‘ کہا گیا ہے) مقدس علاقہ سمجھتے ہیں، اور وہ کسی بھی قانون کو خاطر میں لائے بغیر اس پر قبضہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
ضرار کھوڑو کے مطابق، اسرائیل اور دیگر مغربی طاقتوں کی خاص طور پر مسلم ممالک کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت کے مقابلے میں، ان کے پاس اپنی بقا کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ عسکری طور پر طاقتور بنیں۔
انہوں نے کہا کہ جتنی طاقت حاصل کر سکتے ہو، کرو، ان کا مشورہ تھا کہ جدید اور مہلک ہتھیاروں کا ذخیرہ بڑھایا جائے، کیوں کہ صرف طاقت ہی طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔