
سابق چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس جواد ایس خواجہ نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی درخواست دائر کی ہے۔
یہ درخواست 7 مئی کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل نہ کرنے کے خلاف دائر کی گئی ہے، جس میں 9 مئی 2023 کے فسادات کے حوالے سے کورٹ مارشل کے فیصلوں کے خلاف آزاد اپیلیٹ فورم قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا، جس پر 45 دن کے اندر عمل درآمد کرنا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم نظر انداز کر دیا گیا اور وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی نافرمانی کی ہے، یہ درخواست سینئر وکیل خواجہ احمد حسین کے ذریعے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اس انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) میں درخواست گزار بھی تھے، جسے 5 رکنی آئینی بینچ نے 7 مئی کو نمٹایا تھا۔
یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت، توہینِ عدالت آرڈیننس 2003 کی دفعات 3 سے 6 اور سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر XXVII کے تحت دائر کی گئی ہے۔
7 مئی کو، سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) اور اس سے متعلقہ قوانین میں ضروری ترامیم/قانون سازی 45 دن کے اندر کریں تاکہ فوجی عدالتوں کی طرف سے سویلینز کو دی گئی سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا آزاد حق دیا جا سکے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیر اعظم، وفاقی حکومت کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں، کیوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، وفاقی حکومت کی جانب سے قانون سازی میں ناکامی، اور سویلینز کے لیے اپیلیٹ فورم فراہم نہ کرنا، کورٹ مارشل کی تمام کارروائیوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی بناتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ چوں کہ دی گئی مدت کے اندر اپیلیٹ فورم فراہم نہیں کیا گیا، اس لیے انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) اور متعلقہ اپیلیں اب خارج سمجھی جائیں گی، اور عدالت عظمیٰ کے 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے تحت جن قانونی دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، ان کے تحت کوئی بھی نئی کارروائی غیر قانونی اور غیر آئینی ہو گی۔
درخواست میں کہا گیا کہ قانون سازی کے لیے مقررہ 45 دن کی مدت ختم ہونے کا مطلب سپریم کورٹ کے حکم کی دانستہ نافرمانی ہے، اگر وفاق، وقت کے تعین کے ساتھ دی گئی عدالتی ہدایات پر عمل نہ کرے تو کوئی بھی طرزِ حکمرانی نہیں چل سکتا۔
آئین کے آرٹیکل 90، رولز آف بزنس اور سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کے مطابق، وزیر اعظم بطور چیف ایگزیکٹو، وفاقی حکومت کو دی گئی عدالتی ہدایات پر عملدرآمد کے ذاتی طور پر ذمہ دار ہیں۔
اس لیے درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ وزیر اعظم توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں کیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ مقدمہ بنیادی حقوق کے تحفظ اور نفاذ سے متعلق ہے، بالخصوص منصفانہ ٹرائل اور قانونی عمل کے حق سے متعلق ہے۔
درخواست میں یاد دہانی کرائی گئی کہ سپریم کورٹ کے 7 مئی کے مختصر حکم میں آئینی بینچ نے اتفاقِ رائے سے اس بات کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ قانون سازی کی جائے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے تقاضوں کے مطابق ہو اور آئینی و معاشرتی اصولوں کا تحفظ کرے۔
بینچ نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جو پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے مطابق ہو اور موجودہ قانونی نظام میں آئینی اصولوں کا تحفظ کرے۔
آئین کے تحفظ اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ ایسا قانون بنائے جس کے تحت فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ سویلینز کو ہائی کورٹس میں اپیل کا حق حاصل ہو۔
درخواست کے آخر میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے مختصر حکم کی زبان لازمی نوعیت کی ہے، جس میں حکومت کو کوئی اختیارِ صوابدید حاصل نہیں، حکومت پر لازم ہے کہ وہ قانون سازی کرے اور یہ قانون سازی سویلینز کے لیے سویلین عدالتوں میں اپیل کا حق فراہم کرے۔