مرزا عبدالعلیم بیگ
کمرے میں اندھیرا تھا، مگر ٹی وی کی روشنی میں ہر چہرہ ننگا لگ رہا تھا۔ ایک صاحب جو شاید کسی سابقہ وزارت کے وارث تھے، اپنے شکم کے اوپر رکھے سگار کو یوں تھپک رہے تھے جیسے وہ ان کا ذاتی پالتو جانور ہو۔ سگریٹ کی دھواں دار سرحدوں میں ایک اور صاحب، جنہیں سب ’منسٹر صاحب‘ کہتے تھے، کرسی پر نیم دراز تھے۔ زبان سے الفاظ نہیں نکلتے تھے، صرف وعدے نکلتے تھے، اور وعدے بھی وہ جو کبھی کاغذ پر نہیں اترے۔
دیوار پر آویزاں قومی پرچم کے سائے میں ایک نوجوان لڑکا کھڑا تھا۔ وہ ’بہتر پاکستان‘ اور ’وؤٹ کو عزت دو‘ کی کسی مہم میں رضاکار تھا۔ چہرے پر معصومیت تھی، لیکن آنکھوں میں سوال۔ وہ ہر جملے کے بعد خاموشی سے دیکھتا، جیسے پرانی گلی میں کسی لاش کی تلاش میں ہو۔
’آپ لوگ قوم کی خدمت کر رہے ہیں نا؟‘ اُس نے ہمت کر کے پوچھا۔
منسٹر صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’بیٹا، ہم تو قوم کو سروس فراہم کر رہے ہیں … وہ بھی پری پیڈ!‘
سب ہنسے۔ سگار، دھواں، اور قہقہے۔ لڑکے کی مسکراہٹ کہیں کھو گئی۔ اتنے میں ایک آدمی اندر گھسا، ماتھے پر پسینہ، ہاتھ میں ایک لفافہ۔
’صاحب، وہ انتخابی حلقے میں لوگ پانی مانگ رہے ہیں، بجلی نہیں، اسپتال بند ہیں۔‘
سابقہ وزیر نے سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے پوچھا: ’تو ہمیں کیوں بتا رہے ہو؟ ہم محکمہ عوامی فلاح کے نہیں، اقتدار کے نمائندے ہیں!‘
لفافہ میز پر رکھا گیا۔ اندر ’ترقیاتی فنڈز‘ کی فہرست تھی، ساتھ کچھ تصاویر ـ ایک عورت کی جس نے بھوک سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو دریا میں پھینک دیا تھا، ایک بوڑھے کی جس کا شناختی کارڈ تھا مگر شناخت نہیں، اور ایک چھوٹے بچے کی جو سکول کی فیس نہ ہونے پر مزدور بن گیا تھا۔ ایم این اے صاحب نے تصاویر اٹھائیں، لمحہ بھر کو دیکھا، اور پھر ہنستے ہوئے کہا:
’یہ سب تو سیاسی سکرپٹ کا حصہ ہے … جذبات بیچو، ووٹ لو۔‘
نوجوان لڑکے نے ایک نظر سب پر ڈالی۔ پھر آہستہ سے کہا:
’صاحب، یہ کرسی تو گرم ہے، لیکن آپ کا ضمیر؟ وہ تو شاید … ٹھنڈا گوشت بن چکا ہے۔‘
منسٹر صاحب کے ہونٹوں پر جمی مسکراہٹ چند لمحوں کو جم گئی۔ سگار سے ایک آخری کش لیا اور راکھ بکھیر دی ـ شاید اندر کے سچ کو مٹی میں چھپانے کی آخری کوشش۔ نوجوان آہستہ آہستہ پیچھے ہٹا، جیسے وہ اس نظام سے اپنے وجود کو چھڑا رہا ہو۔ دروازہ کھولا، باہر کی گلی میں نکلا۔ رات سیاہ تھی، لیکن اس کا چہرہ اُس سے بھی زیادہ تاریک لگ رہا تھا۔ سیاستدانوں نے کچھ لمحے خاموشی میں گزارے، پھر منسٹر صاحب نے قہقہہ لگایا، ’آج کل کے نوجوانوں کو ڈرامے بہت آتے ہیں۔ خیر، اگلا جلسہ کہاں ہے؟‘
کسی نے موبائل پر نقشہ کھولا، کسی نے قہقہہ دہرایا، کسی نے وعدوں کے نئے پیکج پر تبصرہ شروع کیا۔ مگر ایک گھنٹے بعد، شہر کے مضافاتی علاقے میں، ایک چھوٹے پل کے نیچے، ایک لاش ملی۔ چہرہ نوجوان کا تھا۔ بازوؤں میں ایک لفافہ تھا، وہی جس میں ’ترقیاتی فنڈز‘ کی فہرست، عورت کی تصویر، بچے کی مسکراہٹ، اور بوڑھے کی شناخت دبی ہوئی تھی۔ پیچھے دیوار پر خون سے لکھا تھا:
’ووٹرز کو عزت دو‘
’جمہوریت دفن ہے، کرسی کے نیچے!‘
اخبارات نے خبر چھاپی ـ صفحہ نمبر چھ پر، نیچے کونے میں، ایک کالم میں۔ اور پولیس نے بیان دیا:
’یہ ایک ذہنی مریض تھا، اور ملک دشمن عناصر اس جیسے نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔‘