
مرزا عبدالعلیم بیگ
شہر کی پرانی بستی کے بیچوں بیچ، ایک پرشکوہ عمارت تھی ـ سنگ مرمر کے ستون، نیلے شیشوں کی کھڑکیاں، اور چوکھٹ پر کندہ تحریر: ’یہ عوام کا گھر ہے۔‘ اس عمارت کو سب ’محفل سرا‘ کہتے تھے، مگر وہ جو اس کے اندر رہتے تھے، اسے ’نظام خانہ‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ نظام خانہ میں وقتاً فوقتاً نئی نئی چہروں والی خواتین آتی تھیں۔ کچھ کو عوام خود لاتے، اور اکثریت کو لایا جاتا۔ ہر چہرہ عوام سے وعدے کرتا، نغمے گاتا، خواب دکھاتا۔ ہر کوئی اپنی اپنی زبان، لباس اور لب و لہجہ لے کر آتا، مگر سب کا مقصد ایک ہی ہوتا: نظام خانہ میں اپنی جگہ بنانا۔
محفل سرا کی نچلی منزلوں سے لے کر بلند و بالا کمروں تک، ہر کونے میں ایک سایہ موجود تھا۔ ایک خاموش، مگر طاقتور وجود ـ جسے کسی نے کبھی دیکھا نہیں، لیکن سب اس کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ اس سایے کو ’نائکہ‘ کہا جاتا تھا، مگر یہ نائکہ کسی فرد کا نام نہ تھا، یہ ایک طاقت تھی ـ مضبوط، مستقل، اور بے چہرہ۔ نائکہ بدلتی نہ تھی۔ صرف چہرے بدلتے تھے۔ نئے کردار آتے، نغمے بدلتے، وعدے بدلتے، مگر ساز وہی رہتا ـ اور ساز پر انگلیاں اسی نائکہ کی چلتی رہیں۔
شہر کے لوگ، جو نظام خانہ کے باہر اپنی روزمرہ زندگی میں مصروف رہتے، اکثر محفل سرا کے شیشے کے آئینے میں جھانکتے۔ انہیں کچھ امید نظر آتی، کچھ تبدیلی کی خواہش، کچھ روشنی۔ مگر جوں ہی وہ قریب آتے، شیشے پر دھواں چھا جاتا۔
’یہ تو وہی چہرہ ہے جو پچھلے برس تھا!‘ ایک بوڑھا بولا۔
’نہیں، اس کا لہجہ تو مختلف ہے!‘ ایک نوجوان نے کہا۔
مگر پھر نائکہ کا اشارہ ہوتا، اور آئینہ دھندلا ہو جاتا۔ سب پرانی باتیں مٹ جاتیں، اور نیا جشن شروع ہو جاتا۔
نظام خانہ کے اندر رہنے والی خواتین، جو کبھی عوام کی ترجمان بن کر آئیں تھیں، اب خود بھی قفس کی قیدی بن چکی تھیں۔ وہ بولتی تھیں، مگر اُن کے الفاظ نائکہ کی اجازت کے بغیر کمرے سے باہر نہ جاتے۔ وہ قدم اٹھاتی تھیں، مگر اُن کے راستے پہلے سے متعین ہوتے۔ کبھی کبھی کوئی سرکشی کرتا، اونچی آواز میں سوال کرتا۔ نائکہ اسے خاموش کر دیتی ـ کبھی کسی مصلحت کے نام پر، کبھی کسی سازش کے، اور کبھی کسی اخلاقی قاعدے کے تحت۔
شہر تھک چکا تھا۔ عوام اب شیشے کے آئینے کو نہیں دیکھتے تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ اصل تماشا آئینے کے پیچھے ہے۔ مگر تماشہ بند نہیں ہوا تھا۔ ایک دن ایک بچہ، جس نے نظام خانہ کو ہمیشہ باہر سے دیکھا تھا، شیشے پر پتھر پھینک دیا۔ شیشہ ٹوٹا، دھواں بکھرا، اور اندر کا منظر پہلی بار سب کے سامنے آیا۔
نائکہ اپنی کرسی پر موجود تھی ـ مسکراتی، خاموش، اور مطمئن۔ مگر اس روز، پہلی بار، وہ بھی ایک لمحے کو چونکی۔ آئینے کے پار عوام کھڑے تھے ـ خاموش نہیں، بلکہ ایک نئے خواب کے ساتھ! نائکہ نے لمحہ بھر کو چونک کر عوام کی آنکھوں میں جھانکا ـ وہ آنکھیں جو برسوں سے فقط تماش بین تھیں، اب ان میں چنگاریاں تھیں۔ وہ محض خواب دیکھنے والے نہیں رہے تھے، اب وہ خواب بُننے اور انھیں چھیننے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
اُس لمحے، ہوا میں ایک ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی۔ آئینے کے ٹوٹے ہوئے کنارے آہستہ آہستہ نظام خانہ کی دیواروں میں دراڑیں ڈالنے لگے۔ کچھ لمحوں کے لیے لگنے لگا جیسے سب کچھ بدلنے والا ہو۔ لیکن نائکہ مسکرائی۔ وہ جانتی تھی کہ خواب دیکھنے والوں کو خواب دکھانا آسان ہوتا ہے، مگر خواب پورے کرنے کی اجازت…؟ وہ کسی کو نہیں دیتی!