تحریر منیر احمد خان
21 جون شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا یومِ پیدائش ہے — وہ عظیم رہنما جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن کر تاریخ رقم کی۔
2 دسمبر 1988 کو وہ دنیا کی کم عمر ترین وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھانے والی پہلی خاتون بنیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو جمہوریت، عوامی حقوق، اور سیاسی بہادری کی روشن علامت تھیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے 1993 سے لے کر ان کی شہادت (2007) تک ان کے ساتھ کام کیا۔ یہ رفاقت محض سیاست کی حد تک نہ تھی بلکہ نظریاتی ہم آہنگی اور اعتماد کا تعلق تھا، جس نے مجھے ان کی جدوجہد کا چشم دید گواہ بنایا۔
بینظیر بھٹو نے ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے دنیا کے مایہ ناز اداروں سے تعلیم حاصل کی، مگر ان کی اصل تربیت ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت، قید و بند کی صعوبتوں، اور پاکستانی عوام کے غم و الم نے کی۔
ان کی شخصیت میں علم، فہم اور سیاسی بصیرت کی گہرائی تھی۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بے مثال جدوجہد کی، جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں، اور بالآخر 1988 میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔
وہ 1993 میں دوبارہ وزیرِاعظم بنیں اور ہر دور میں عوام سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کیا۔ ان کی حکومتوں کا محور عوامی فلاح، خواتین کے حقوق، تعلیم، صحت اور سماجی ترقی رہا۔
جون 1989 میں جب محترمہ نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور امریکی کانگریس سے خطاب کیا، تو انہیں ایک ’زبردست خیرمقدمی استقبال‘ (Standing Ovation) ملا — اراکینِ کانگریس طویل وقت تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے، جو ان کی قیادت اور عالمی قدردانی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں بھی انہوں نے جرأت و استقامت سے مقابلہ کیا۔
1998 میں جب مجھے (منیر خان) جلاوطنی اختیار کرنا پڑی اور میں امریکہ آ گیا، تو محترمہ نے مجھے فون کیا اور کہا:
“آپ نے امریکہ آ کر اچھا کیا، یہ لوگ بڑے ظالم ہیں۔”
یوں میں محترمہ کے بعد پہلا سیاسی کارکن تھا جو جلاوطنی پر مجبور ہوا۔
سیاسی اتحادوں کی تشکیل میں بھی محترمہ کا کردار بے مثال رہا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ مل کر جب اپوزیشن اتحاد تشکیل پایا تو محترمہ نے مجھے پاکستان عوامی اتحاد، GDA اور ARD کا سیکریٹری اطلاعات مقرر کروایا۔
1997 اور 2002 کے انتخابات میں پارٹی کے بعض سینئر رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود محترمہ نے مجھے ٹکٹ دیا، کیونکہ ان کے نزدیک نظریاتی وابستگی سب سے اہم تھی۔
محترمہ نے پارٹی اجلاس میں واضح کہا:
“منیر خان جدوجہد کا ساتھی ہے، اگر ایک نشست ہار بھی جائے تو کوئی بات نہیں۔”
یہی ہوتا ہے ایک سچے قائد کا ظرف۔
محترمہ میری انتظامی صلاحیتوں (Management Skills) کو سراہتی تھیں۔
اکثر لوگ کہتے تھے کہ وہ دوسروں کی بات نہیں سنتیں، لیکن میں نے انہیں ہمیشہ دلیل اور سمجھداری کی بات کو توجہ سے سنتے دیکھا۔ مجھے فخر ہے کہ وہ میری بات کو ہمیشہ وزن دیتی تھیں۔
محترمہ ہمیشہ کارکنوں سے براہِ راست رابطے میں رہتی تھیں۔ پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور خطہ، ہر کارکن یقین رکھتا تھا کہ محترمہ ان کے مشورے پر عمل کرتی ہیں — کیونکہ وہ مشاورت پر کامل یقین رکھتی تھیں۔
محترمہ کا تاریخی کارنامہ یہ بھی ہے کہ 14 مئی 2006 کو لندن میں انہوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کیے۔
اس موقع پر انہوں نے مجھے خصوصی طور پر لندن بلایا اور فرمایا:
“تم میرے پیچھے کھڑے ہو گے، کیونکہ تم نے ہمیشہ جمہوریت اور سیاسی اتحادوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔”
اور پھر وہ لمحہ آیا، جب بڑے بڑے رہنما فاصلے پر کھڑے تھے، اور میں ان کے بالکل پیچھے موجود تھا۔
محترمہ نے آمریت کے سامنے کبھی سر نہ جھکایا۔
ان کی زندگی کا ہر لمحہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور آزاد میڈیا کی حمایت میں گزرا۔
27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے دوران وہ شہید ہو گئیں — ایک ایسا سانحہ جس نے صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں، پوری قوم کو یتیم کر دیا۔
آج جب ہم ان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں، تو دل رنجیدہ ہوتا ہے کہ وہ پارٹی، جسے محترمہ نے اپنے خون، علم اور قربانی سے سینچا، آج صرف اقتدار کے لیے مفاہمتوں کا شکار ہے۔
حالانکہ محترمہ اقتدار نہیں، اقدار کی سیاست کی علمبردار تھیں۔
ان کا ایمان تھا کہ سیاست عوام کی خدمت کے لیے ہو، ادارے بااختیار ہوں، اور جمہوریت حقیقی شکل میں موجود ہو۔
آج ہم محترمہ بینظیر بھٹو کی جدوجہد، قربانی اور اصولی سیاست کو سلام پیش کرتے ہیں۔
وہ آج بھی زندہ ہیں — ہر اُس دل میں، جو جمہوریت، آئین، قانون، اور انسانی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔
ان کی سالگرہ منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کے مشن پر چلیں — حقیقی آزادی کے راستے پر:
• جمہوریت کا فروغ
• قانون کی حکمرانی
• عدلیہ کی بالادستی
• میڈیا کی آزادی
یہی وہ خراجِ عقیدت ہے جو ان کے شایانِ شان ہے۔
اللہ تعالیٰ محترمہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ہمیں ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین۔