
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے واضح کیا کہ ایران امریکی غرور کے آگے جھکے گا نہ ہی جوہری تحقیق ختم کرے گا۔
ترک خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق سرکاری خبر رساں ایجنسی ارناسے گفتگو میں صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ امریکا اور یورپ کے ساتھ جوہری معاملے پر مذاکرات جاری ہیں اور یہ بات چیت سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے طے کردہ دائرہ کار میں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم غرور کے سامنے نہیں جھکیں گے، ہم کبھی یہ نہیں مانیں گے کہ اپنی جوہری تحقیق ختم کر دیں اور پھر ان کی اجازت کے منتظر رہیں کہ ہمیں صنعت، طب، زراعت اور دیگر سائنسی میدانوں کے لیے درکار جوہری مواد تک رسائی دی جائے‘۔
صدر مسعود پزشکیان نے یورینیم کی افزودگی اور جوہری تحقیق روکنے سے متعلق امریکی مطالبات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’کس نے کہا کہ ہمیں سائنسی تحقیق کے لیے اجازت کی ضرورت ہے؟ وہ کون ہوتے ہیں جو ہم سے اپنی پوری جوہری صنعت کو ختم کرنے کا مطالبہ کریں؟‘۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے چند ماہ قبل کے مقابلے میں اب کم پُرامید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ تاخیر کر رہے ہیں، جو افسوسناک ہے، میں اب اتنا پُرامید نہیں جتنا کچھ مہینے پہلے تھا‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کو اس کے جوہری پروگرام سے روکنے پر قائل کر سکتے ہیں، تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’مجھے معلوم نہیں‘،تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’چاہے معاہدہ ہو یا نہ ہو، ایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے دیا جائے گا‘۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے بتایا کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہو گا۔
اپریل سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں عمان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور اب تک مسقط اور روم میں مذاکرات کے 5 دور ہو چکے ہیں۔
دونوں فریقین نے اب تک ہونے والی پیش رفت کو تسلیم کیا ہے لیکن کوئی فیصلہ کن بریک تھرو ابھی سامنے نہیں آیا۔
یورینیم کی افزودگی مذاکرات میں سب سے بڑا تنازع بنی ہوئی ہے، امریکا اس کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے جب کہ ایران اسے جاری رکھنے پر مُصر ہے۔
سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی کہا ہے کہ انہیں امریکا کے ساتھ مذاکرات سے کوئی خاص نتیجہ نکلنے کی توقع نہیں اور یہ کہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی جگہ کوئی نیا جوہری معاہدہ نہ ہو سکا تو فوجی کارروائی کا آپشن بھی موجود ہے، امریکا 2018 میں اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گیا تھا۔