
ملک میں شدید موسمیاتی خرابیوں، خراب معاشی حالات اور قحط سالی کی وجہ سے مراکشی بادشاہ نے ایک بار پھر عوام سے عید الاضحیٰ پر قربانی نہ کرنے کی اپیل کردی۔
مراکشی بادشاہ نے پہلی بار فروری 2025 اور بعد ازاں مارچ میں بھی عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اس بار عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی سے گریز کریں، ملک میں پہلے ہی جانوروں کی قلت ہے، بہت بڑے پیمانے پر قربانی سے جانوروں کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔
عید الاضحیٰ قریب آنے پر مراکشی بادشاہ نے ایک بار پھر عوام سے بڑے پیمانے پر قربانی نہ کرنے کی اپیل کی۔
عرب ویب سائٹ کے مطابق بادشاہ کی اپیل کے بعد حکومت نے ملک بھر میں مویشی منڈیوں کو بند کروانا بھی شروع کردیا جب کہ قربانی کے وقت کام میں آنے والے آلات کی فروخت کو بھی محدود اور سخت کردیا۔
ایک اور مراکشی ویب سائٹ کے مطابق فیصلہ بادشاہ محمد ششم کی جانب سے جاری شاہی فرمان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں قربانی کی ادائیگی سے تنخواہ دار اور متوسط طبقے پر شدید مالی دباؤ پڑ سکتا ہے، اس لیے عوام کو اس سال قربانی کی سنت ادا نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
بادشاہ نے یاد دہانی کروائی کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے اور دین اسلام میں مشکل حالات میں رعایت کی گنجائش موجود ہے۔
بعدازاں شاہ محمد ششم نے اپنی جانب سے دو بھیڑیں قربان کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ اس اہم سنت کی روح برقرار رکھی جاسکے۔
دوسری جانب بادشاہ کی اپیل کے بعد ملک بھر کی مویشی منڈیوں سے قربانی کے جانور اچانک غائب ہوگئے ہیں، جبکہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں، جن میں مبینہ طور پر سرکاری اہلکار گھروں سے بھیڑیں ضبط کرتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ صورتِ حال عوام میں شدید تشویش اور غصہ پیدا کررہی ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ پابندی ملک میں تین سال سے جاری شدید خشک سالی کے بعد مویشیوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی کو بچانے کے لیے عائد کی گئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، آبی ذخائر کی سطح 23 فیصد تک گرچکی ہے، جبکہ 2022 کے بعد سے مویشیوں اور بھیڑوں کی تعداد میں 40 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔
اس فیصلے سے موسمی کارکنوں، قصابوں اور گلی محلوں کے چھوٹے دکانداروں کو آمدنی میں بھاری نقصان کا سامنا ہے، کیونکہ عیدالاضحیٰ ان کی سالانہ کمائی کا 60 سے 80 فیصد حصہ مہیا کرتی ہے۔
ایک مقامی دکاندار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خاندان کا انحصار عید کے سیزن کی آمدنی پر ہوتا ہے، لیکن اس سال ہم کچھ نہیں کماسکیں گے۔
یہ پابندی مراکش کے 3 کروڑ 70 لاکھ مسلمانوں کے مذہبی جذبات پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے، جن کے لیے عیدالاضحیٰ کی قربانی ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔
تاہم، ملک بھر کے کئی مذہبی اسکالرز نے اس فیصلے کی تائید کی ہے اور اسلامی فقہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قحط یا معاشی تباہی کی صورت میں استثنا کی اجازت موجود ہے۔