
کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے سالانہ پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2024-25 جاری کر دی ہے،
جس میں آزادی صحافت کو درپیش شدید خطرات، صحافیوں کے قتل، اغوا، مقدمات، تشدد، دھمکیوں اور ریاستی و غیر ریاستی جبر کی سنگین صورتحال کا احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک بھر میں 7 صحافی قتل کیے گئے جبکہ صحافیوں کے خلاف 104 سے زائد کیسز، اغوا اور مقدمات درج ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل کیے جانے والے صحافیوں کے قاتل اب تک گرفتار نہ ہو سکے اور نہ ہی ان کے محرکات سامنے لائے جا سکے۔ سی پی این ای رپورٹ کے مطابق گلوبل فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی دو درجے مزید نیچے گر کر 152 ویں نمبر پر آ گئی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں آزادی صحافت کی صورتحال تشویشناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ پیکا ایکٹ 2025 اور پنجاب کا ہتک عزت قانون 2024 کو آزادی اظہار پر براہ راست حملہ قرار دیتے ہوئے رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ان قوانین کی تیاری اور نفاذ میں صحافتی اداروں یا اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، جو نہ صرف غیر جمہوری عمل ہے بلکہ آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
سی پی این ای کی جانب سے اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں اس رپورٹ کی تقریبِ رونمائی منعقد کی گئی، جس کی صدارت سی پی این ای کے صدر کاظم خان نے کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کاظم خان نے کہا کہ سی پی این ای ہر سال آزادی صحافت کی صورتِ حال پر رپورٹ شائع کرتی ہے، اور اس بار کی رپورٹ شہید صحافیوں کے نام منسوب ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم لواحقین سے وعدہ کرتے ہیں کہ انصاف ہو کر رہے گا۔ سینئر صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی تقریب میں شرکت کی اور اظہار خیال کیا۔
صدر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) ڈومینک پریلے اور سیکریٹری جنرل انتھونی بلیگرین نے اپنے پیغامات میں حکومت سے پیکا قانون پر نظرثانی اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ذریعے اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "کوئی بھی جمہوریت آزادی صحافت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
حامد میر نے خطاب میں کہا کہ "اس وقت بھی 8 سے 9 اینکرز آف ایئر ہیں، پیکا قانون مارشل لا سے کم نہیں، صحافیوں کو جھوٹ کے خلاف بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔”
انہوں نے مقتول صحافی صدیق مینگل اور ارشد شریف کے کیسز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پیغام ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں۔ مظہر عباس نے کہا کہ "صحافیوں پر آج سخت وقت ہے، اگر ہم سب مل کر پیکا اور دیگر کالے قوانین کے خلاف صرف ایک اداریہ بھی لکھیں تو یہ ایک طاقتور عمل ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ایسا بھی نہیں ہو رہا۔ ہم سمجھوتے کر رہے ہیں مگر مزاحمت نہیں۔ رانا عظیم نے کہا کہ "عدالتیں خاموش ہیں، اور ہم بس دیکھ رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بند کمروں سے نکل کر سڑکوں پر آیا جائے۔”
ارشاد انصاری نے کہا کہ "پولیس اب پیکا کے تحت مقدمے درج کر رہی ہے، ہمیں متحد ہو کر یہ قوانین ختم کروانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ابصار عالم نے کہا کہ "صحافی برادری میں اتحاد کا فقدان ہے، اور یہی ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔”
ایاز میر نے کہا کہ "پاکستان میں میڈیا کی آزاد حیثیت باقی نہیں رہی، میڈیا دیگر طاقتوں کے مرہونِ منت ہے۔ ایچ آر سی پی کے نمائندے خلیق عارف نے اظہار رائے، اجتماع کی آزادی اور صحافت کے باہمی تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ "صحافیوں نے خود کو محض بیانات تک محدود کر دیا ہے، اصل صحافت محنت اور حق گوئی کا نام ہے۔
وسعت اللہ خان، اسد طور، مطیع اللہ جان، ثاقب بشیر، اظہر جتوئی، طارق علی ورک اور دیگر نے بھی صحافیوں کو درپیش خطرات کے خلاف عملی جدوجہد پر زور دیا۔ تقریب کے اختتام پر صدر سی پی این ای کاظم خان نے پیکا ایکٹ 2025 اور پنجاب کے ہتک عزت قانون 2024 کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ قوانین آزادی اظہار کے خلاف ہیں،
حکومت نے اسٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی، اس لیے ہم ان قوانین کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پی این ای صحافت، صحافیوں اور سچائی کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور فیک نیوز کی روک تھام میں بھی بھرپور کردار ادا کرے گی۔
جاری کردہ: کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز