
ایران ایک اعلیٰ سفارتکار نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے دہائیوں پر محیط جوہری تنازع کو ختم کرنے کی تجویز کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تہران اس تجویز کو مسترد کرنے کے لیے تیار ہے۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایران کی مذاکراتی ٹیم کے قریب ایک اعلیٰ سفارتکار نے بتایا ہے کہ ایران امریکی تجویز پر ایک منفی ردعمل تیار کر رہا ہے، جسے امریکی پیشکش کو مسترد کرنے کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
امریکا نے جوہری مذاکرات میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے والے عمان کے وزیر خارجہ سید بدر البوسعیدی کے ذریعے تہران کو نئی جوہری ڈیل کی تجویز پیش کی تھی۔
تاہم، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان 5 دور کی بات چیت کے بعد بھی کئی اہم معاملات پر اختلافات برقرار ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ تہران یورینیم کی افزودگی کو مکمل طور پر ختم کرے، جسے ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا راستہ سمجھا جاتا ہے اور ایران کی جانب سے یہ بنیادی اختلافی نکات میں سے ایک ہے۔
تہران کا مؤقف ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے اور مغربی طاقتوں کی ان الزامات کی طویل عرصے سے تردید کرتا آیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
سفارتکار نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس تجویز میں ایرانی سرزمین پر افزودگی کے بارے میں امریکی مؤقف تبدیل نہیں ہوا، اور پابندیاں ہٹانے کے حوالے سے کوئی واضح وضاحت موجود نہیں۔
تہران کا مطالبہ ہے کہ امریکا کی جانب سے عائد تمام پابندیاں، جو اس کی تیل پر مبنی معیشت کو متاثر کرتی ہیں، فوری طور پر ختم کی جائیں لیکن امریکا چاہتا ہے کہ جوہری سے متعلق پابندیاں بتدریج ختم کی جائیں۔
درجنوں ایرانی اداروں بشمول مرکزی بینک اور قومی تیل کمپنی پر 2018 سے پابندیاں عائد ہیں کیونکہ واشنگٹن کے مطابق وہ ’دہشت گردی یا ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی حمایت‘ کرتے ہیں۔
ٹرمپ کے جنوری میں دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد ایران کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی مہم دوبارہ شروع کی گئی ہے، جس میں سخت پابندیاں اور اگر موجودہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو ایران پر حملے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
اپنے پہلے دورِ صدارت میں، ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ کیے گئے 2015 کے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا اور دوبارہ پابندیاں عائد کی تھیں جس نے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دیا تھا۔