
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین پرپاکستان کے مؤقف کی ستائش کی ہے اور ساتھ ہی باہمی تعلقات بڑھانے اور ایک دوسرے کی معاونت پر زوردیا ہے۔
پیر کو وزیراعظم پاکستان شہبازشریف اوران کے وفد نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کی۔
ایران کے سپریم لیڈر نے مسلم دنیا میں پاکستان کے خصوصی کردار کو اجاگر کیا اور زور دیا کہ ایران اور پاکستان کو مل کر صیہونی حکومت کو غزہ میں جرائم سے روکنا چاہیے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ملاقات کے بعد سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کامؤقف نہایت قابل ستائش ہے۔اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کیلئے مسلم ممالک کو ہمیشہ ترغیبات رہی ہیں تاہم ان ترغیبات سے پاکستان کبھی متاثرنہیں ہوا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ بعض مسلم ممالک صیہونی حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعاون کے ذریعے ایران اور پاکستان مسلم دنیا میں اہم اور پراثر کردار ادا کرسکتے ہیں اور مسئلہ فلسطین کو موجودہ غلط سمت سے ہٹا کر اس کی سمت درست کی جاسکتی ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ وہ مسلم دنیا کے مستقبل سے پرامید ہیں اورکئی ایسی پیشرفت ہوئی ہیں جو اس امید کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے سوشل میڈیاپر جاری بیان میں پاک بھارت تنازعہ میں کمی پر اطمینان کااظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ دونوں اقوام کے درمیان تنازعات کا حل نکالا جائے گا۔
عالمی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب جنگوں کے حامی دنیا بھر میں تنازعات اور تقسیم پھیلانے کی کوشش میں ہیں، مسلم دنیا میں سلامتی اور تحفظ کا اہم ذریعہ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد اور تعلقات کی مضبوطی میں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نےاس بات پر زور دیا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون کے ذریعے اقتصادی تعاون تنظیم ای سی او کو پھر سے فعال کیا جانا چاہیے۔
پاک ایران تعلقات کے تاریخی تناظر میں آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات میں مستقل گرمجوشی رہی ہے اور یہ ہمیشہ برادرانہ رہے ہیں۔
ایران عراق جنگ دور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُس دور میں بھی پاکستان کا موقف اس برادرانہ رشتہ کی سند رہا ہے۔
ساتھ ہی آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ مختلف شعبوں میں موجودہ دوطرفہ تعاون توقعات سے کم ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کی معاونت کرسکتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ یہ دورہ باہمی تعلقات خصوصاً اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں جامع توسیع کا ذریعہ بنےگا۔