دنیا

اسرائیل میں غزہ جنگ کے خلاف آوازوں میں اضافہ

جیسے جیسے غزہ میں اسرائیلی جنگ تشدد کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں جیسے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

بائیں بازو کے سیاست دان اور اسرائیلی فوج کے سابق ڈپٹی کمانڈر یائر گولن کو سوموار کے روز اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے ایک سمجھدار ملک کی طرح برتاؤ کرنا شروع نہیں کیا تو اسرائیل بھی جنوبی افریقہ کی طرح ایک پاریہ ریاست بن جائے گا۔

اسرائیلی ریڈیو پر مارننگ نیوز پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’ایک سمجھدار ریاست عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں کرتی، کسی مشغلے کے طور پر بچوں کو ہلاک نہیں کرتی، اور اپنے علاقوں سے مکینوں کو نکالنے کا ہدف نہیں اپناتی۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ان بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے انھیں ’بہتان‘ قرار دیا ہے۔

سابق اسرائیلی وزیر دفاع اور چیف آف سٹاف موشے ’بوگی‘ یاعلون نے بدھ کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک حکومتی پالیسی ہے جس کا حتمی مقصد اقتدار سے چمٹے رہنا ہے۔ ’یہ پالیسی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔‘

صرف 19 ماہ قبل جب حماس کے عسکریت پسندوں نے سرحدی باڑ عبور کر کے اسرائیل میں حملہ کیا تھا تو اس وقت اس طرز کے بیانات ناقابل تصور تھے۔

اب غزہ تباہی کا شکار ہے، اسرائیل نے ایک نیا فوجی حملہ شروع کیا ہے اور 11 ہفتوں کی ناکہ بندی ختم کرنے کے اعلان کے باوجود اب تک غزہ میں پہنچنے والی امداد بہت محدود ہے

اسرائیل کے چینل 12 کی طرف سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 61 فیصد اسرائیلی جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی محفوظ واپسی چاہتے ہیں، جبکہ صرف 25 فیصد غزہ میں فوجی کارروائیوں میں اضافے اور قبضے کی حمایت کرتے ہیں۔

اسرائیلی حکومت کا اصرار ہے وہ حماس کو ختم کرے گی اور بقیہ یرغمالیوں کو بچا لے گی۔ نتن یاہو کہتے ہیں کہ وہ ایک ’مکمل فتح‘ حاصل کر سکتے ہیں۔

سابق اسرائیلی یرغمالی مذاکرات کار گیرشون باسکن کہتے ہیں کہ اسرائیلی معاشرے کے دیگر طبقات میں ’مایوسی اور صدمے‘ کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے یرغمالیوں کے خاندانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ جنگ ختم ہونی چاہیے اور ایک معاہدہ ہونا چاہیے۔

تاہم ایک قلیل تعداد پہلے حماس کے خاتمے اور پھر یرغمالیوں کو آزاد کروانے کے حق میں بھی ہے۔

اتوار کے روز، تقریباً 500 مظاہرین نے اسرائیل کے نئے فوجی حملے کے خلاف احتجاجاً سڈروٹ شہر سے غزہ کی سرحد تک مارچ کیا۔

ان میں سے اکثر ٹی شرٹس پہنے ہوئے تھے جس پر ’غزہ میں بربریت بند کرو‘ لکھا ہوا ٹھا اور انھوں نے اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔

اس مظاہرے کا اہتمام ’سٹینڈنگ ٹوگیدر‘ نامی ایک گروپ نے کیا تھا جو اسرائیل کے یہودی اور فلسطینی شہریوں کا ایک چھوٹا لیکن تیزی سے بڑھتا ہوا جنگ مخالف گروپ ہے۔ انھوں نے ایک سڑک بلاک کرنے کی کوشش کی، اور گروپ کے رہنما ایلون لی گرین اور آٹھ دیگر کو گرفتار کر لیا گیا۔

گرین جو اپنے گھر میں نظر بند تھے نے بی بی سی کو بتایا، ’میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ اسرائیلیوں میں بیداری آئی ہے، اور زیادہ لوگ واضح موقف اختیار کر رہے ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button