
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے میڈیا سیل بی این پی کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’لکپاس دھرنے سے سردار اختر مینگل نے خطاب میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔ یہ دھرنا ہر صورت جاری رہے گا اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘
اب سے کُچھ دیر قبل بلوچستان نیشنل پارٹی کے اسی ایکس اکاؤنٹ سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’کوئٹہ سونا خان چوک پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے پُرامن کارکنوں پر شیلنگ کی گئی ہے۔‘
تاہم اس حوالے سے تاحال بلوچستان حکومت کی جانب سے کوئی وضاحتی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لانگ مارچ کے حوالے سے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان حکومت تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اگر بی این پی کے دھرنے کے شرکا کی جانب سے دفعہ 144کی خلاف ورزی کی گئی تو ’قانون اپنا راستہ لے گا۔‘
کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے لکپاس میں بی این پی کے دھرنا کے شرکا سے مذاکرات کیے گئے جس میں حکومت کو تین مطالبات پیش کیے گئے تھے۔‘
تاہم اتوار کے روز بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ بلوچستان کے علاقے ضلع مستونگ میں لکپاس کے نزدیک لانگ مارچ کے شرکا کو پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔