
پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات چلائے جانے سے متعلق وفاق اور دو صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر انٹراکورٹ اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا ہے کہ مختصر فیصلہ اسی ہفتے جاری کیا جائے گا۔
وفاق نے نظرثانی کی اپیل سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جس میں لارجر بینچ نے سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کے عمل کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔
23 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نو مئی کے واقعات سے متعلق 103 شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سناتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرلی تھیں۔ بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
اس پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں ملٹری ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کی دونوں ذیلی شقوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نو مئی کے تمام ملزموں کا ٹرائل عام عدالتوں کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
عدالت نے فیصلہ میں کہا کہ ملزمان کے مقدمات ان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے عدالتوں میں چلائے جائیں۔ عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59 (4) کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں پانچ کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کے علاوہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔
تاہم 2024 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی اور اس نے اپنی اپیل واپس لے لی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے نو مئی 2023 کے واقعات سے متعلق مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان واقعات میں مظاہرین کی جانب سے فوجی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بھی شامل ہیں۔
20 جون 2023 کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے عام شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عام عدالتوں کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے۔ اپنی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنھیں کالعدم قرار دیا جائے۔
سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس مقدمے سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔
اس کے علاوہ مارچ 2024 میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت میں کیا ہوتا رہا؟
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے کی۔
ان اپیلوں کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس جمال مندو خیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟
انھوں نے کہا کہ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی ریاستی مفاد کے خلاف ہوتی ہے اور تمام جرائم ریاستی مفاد کے خلاف ہوتے ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے اور فوجی عدالتیں قانون کے تحت وجود میں آئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے ٹرائل میں مروجہ طریقہ کار اور فیئر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے ابزرویشن دی کہ کیا عام قانون سازی کر کے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں؟ اور کیا آئینی ترمیم کر کے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا؟
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے موقف احتیار کیا کہ آئین میں ایسی پروویژن موجود ہے جو سویلین کے کورٹ مارشل کی اجازت دیتی ہے۔
ان انٹرکورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران سات رکنی بینچ کی جانب سے یہ اْبزرویشن بھی دی گئی کہ بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ان کے سامنے ہے ہی نہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو نو مئی واقعات سے متعلق 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی تھی۔
سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے حکم دیا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے انھیں رعایت دے کر رہا کیا جائے۔ تاہم جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انھیں جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں 103 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں مزید دو لوگوں کو گرفتار کر کے ان کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے تھے۔
ان میں سے 20 افراد کو گذشتہ عید الفطر سے قبل رہا کر دیا گیا تھا تاہم اب بھی 85 افراد فوج کی تحویل میں ہیں جن پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں تاہم عدالتی فیصلے کے پیشِ نظر ان کے فیصلے نہیں سنائے گئے۔