لاہور کی فضا: اقتدار اور آلودگی کی تاریخ “آؤ بچوں سنو کہانی “

تحریر:قیصر شریف
کنوئینرپبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی لاہور
نوٹ :اس کہانی میں کوئی بھی کردار فرضی نہیں ہے اور معلومات ذمہ داری کے ساتھ شئیر کی جا رہی ہیں
اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ
عالمی ادارہ صحت اور لاہور جنرل اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق
لاہور میں فضائی آلودگی اب صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ صحتِ عامہ کا بحران (Public Health Emergency) بن چکی ہے اور
“ہر سانس جو لاہور میں لی جاتی ہے، وہ انسانی صحت کے خلاف ایک چیلنج بن چکی ہے۔”
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور شہر کی فضا بھی صحت کے لیے بہترین ہوا کرتی تھی یہ ان وزراء کو تو بالکل بھی پتہ نہیں ہو گا جو 2016 سے پہلے سیاست میں نہیں تھے اور ان بچوں کو بھی پتہ نہیں ہو گا جو اس وقت پانچویں کلاس تک سکول جا رہے ہیں لاہور میں فضائی آلودگی کا آغاز تو کئی سال پہلے سے ہو چکا ہے لیکن مسلم لیگ ن جس کی حکومت 1990 سے آج تک چند سالوں کے علاوہ تقریبا مسلسل چل رہی ہے اس کے وژن میں کبھی بھی فضائی آلودگی موضوع نہیں رہا بلکہ لاکھوں درخت مختلف وجوہات کو بنیاد بنا کر صرف لاہور شہر سے ختم کئے گئے لیکن اس کا کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا جی ہاں میں اسی دور کی بات کر رہا ہوں جب ہمارے ہمسایہ دوست ملک کے شہر بیجنگ کو میڈیا نے “Airpocalypse” (ایئرپوکلیپس) کہا —
یعنی “فضائی قیامت”
اصل آپ ان دو الفاظ سے ہی صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں
بیجنگ کے لیے 2013 ایک نئے چیلنج کو سامنے لے کر آ گیا تھا جب دنیا بھر کی نظر صبح و شام اس پر تھی ایسا کیوں تھا کچھ تفصیلات شئیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں اس وقت
جنوری 2013 میں بیجنگ کا ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) کی سطح 900 تک پہنچ گئی جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک تھی کیونکہ اگر ائیر انڈکس کو سٹڈی کیا جائے تو 0 سے 50 تک صاف ، 52 سے 100 تک درمیانی ،101 سے 200 تک غیر صحت مند ، 201 سے 300 تک خطر ناک اور اس سے اوپر انتہائی خطرناک تصور کی جاتی ہے ایسے میں آپ 900 ائیر انڈکس کا خود ہی انداہ لگا لیجیے یہ وہ دن تھے جس وقت لاہور کی فضا ابھی غیر صحت مند والے درجے میں شمار نہیں ہو رہی تھی لاہور اور کراچی فضائی آلودگی میں چین اور بھارت سے بہت بہتر تھے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے باقاعدہ درجہ بندی تو 2017 میں شائع ہونا شروع ہوئی لیکن میرا اندازہ ہے کہ 2010میں اُس وقت عالمی ادارے IQAir یا AirVisual کی باقاعدہ سالانہ فہرست موجود نہیں تھی لیکن میری سٹڈی کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی شہر ٹاپ 30 فضائی طور پر آلودہ شہروں میں شامل نہیں تھا البتہ 2013 میں لاہور نے پہلی بار عالمی سطح پر توجہ حاصل کی کہ یہ شہر “Emerging Smog Zone” بن چکا ہےلاہور میں PM2.5 کی اوسط سطح تقریباً 68 µg/m³ تھی ۔WHO کا محفوظ معیار صرف 5 µg/m³ ہے۔یعنی لاہور کی فضا اُس وقت بھی 13 گنا زیادہ آلودہ تھی یہ وہ وقت تھا جب فوری طور پر اس مسئلہ کو ایڈریس کیا جانا چائیے تھا لیکن ہمارے ہاں تو وژن کا ایشو دیرینہ مسئلہ ہے ہم تو صرف چند نماشائی اقدامات کرنا چاہتے ہیں جس سے تھوڑی سی واہ واہ ہو سکے چلیے آگے بڑھتے ہیں مختصر ہوا یہ کہ ہماری پنجاب حکومت ، لاہور کی شہری انتظامیہ نے اس مسئلہ کو سنجیدہ نہیں لیا لیکن دنیا نے اس مسئلہ پر ہمارے حوالے سے سنجیدگی سے بات کرنا شروع کر دی 2016 میں لاہور شہر عالمی میڈیا پر پہلی دفعہ سموگ سٹی کہلایا اُس وقت لاہور کا اوسط AQI تقریباً 200–300 کے درمیان تھا لیکن اگلے کی سال 2017 میں
WHO (عالمی ادارہ صحت) اور Greenpeace کے ڈیٹا کے مطابق لاہور شہر فضائی آلودگی میں دنیا بھر میں 7ویں نمبر پر آ گیا ایسے حالات میں بھی ہماری حکومت یعنی اس وقت کے وزیراعلی محترم میاں محمد شہباز شریف صاحب بیانات سے آگے نہیں بڑھے یہاں ابھی اس پریشانی کا سفر ختم نہیں ہوا نومبر 2018 میں لاہور کئی دنوں تک AQI 400–450 پر رہا۔2019 میں IQAir (عالمی ایئر کوالٹی انڈیکس کمپنی) کے مطابق لاہور دنیا کے 3 بدترین شہروں میں شامل تھا یہ وہ وقت تھا جبکہ وزیر اعلی تو پی ٹی آئی کے تھے لیکن اس ایشو پر وژن اور اقدامات میں کوئی تبدیلی نہیں تھی چلیے تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں یہ سب میں آپ کو اس لیے یاد کروا رہا ہوں کہ انسان بہت جلد بھول جاتا ہے چلیے آگے دیکھیے عالمی ادارے ہمارے حوالے سے کیا رائے دیتے ہیں
2020 اور 2021 میں کئی بار لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا۔ 2021 کے موسمِ سرما میں لاہور کا AQI 500+ تک پہنچ گیا۔WHO کے مطابق یہ سطح “Severe Hazardous” یعنی انسانی صحت کے لیے خطرناک ترین حد تک پہنچ گئی یہ وہ وقت تھا جب لاہور کی فضا میں موجود باریک ذرات (PM2.5، PM10)، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، اور کاربن مونو آکسائیڈ یہ سب انسانی جسم پر خاموش مگر خطرناک اثر ڈال رہے تھے جس کی وجہ سے شہر لاہور میں دمہ (Asthma)
سانس لینے میں دشواری (Breathing difficulty) دائمی کھانسی (Chronic Cough) برونکائٹس (Bronchitis)
COPD (Chronic Obstructive Pulmonary Disease
2024 میں لاہور کے اسپتالوں میں سانس کے مریضوں کی شرح 30٪ تک بڑھ گئی۔
بچوں اور بزرگوں میں کھانسی اور دمے کے کیسز دوگنا ہو چکے ہیں
فضا میں موجود آلودہ ذرات خون میں داخل ہو کر شریانوں کو متاثر کرتے ہیں۔
جس کے نتائج ہائی بلڈ پریشر ،ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جانا ، شریانوں کا سکڑ جانا جیسی بیماریوں کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں
اس حوالے سے عالمی اداروں نے یہ دعویٰ کیا تھانہ کہ لاہور میں 2023 میں دل کے امراض سے ہونے والی اموات میں 15–20٪ اضافہ آلودگی سے منسلک تھا
سموگ کے نقصانات صرف یہی نہیں ہیں بلکہ اسموگ کے دوران لوگوں کو آنکھوں میں جلن، پانی آنا، اور بینائی دھندلا ہونے کی شکایت عام ہے • Conjunctivitis (آنکھوں کی سوزش) اسموگ کے موسم میں سب سے عام بیماری ہے
فضا میں زہریلی گیسیں دماغ میں آکسیجن کی فراہمی کو متاثر کرتی ہیں جس سے
یادداشت کمزور ہونا ،ذہنی تھکن
چڑچڑاپن اور نیند کی کمی بچوں میں توجہ
کی کمی (ADHD جیسے اثرات)
آلودگی سے متاثرہ علاقوں میں پیدا ہونے والے بچوں میں:
وزن کم ہوتا ہے
سانس کی نالیاں کمزور ہوتی ہیں
دماغی نشوونما متاثر ہو سکتی ہے
حاملہ خواتین میں قبل از وقت پیدائش (Preterm birth) کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا
جلد کی الرجی، خارش، اور گلے کی سوزش عام ہے۔
فضا میں موجود سلفر اور نائٹروجن کمپاؤنڈز جلد کو خشک اور حساس بنا دیتے ہیں
آج 27 اکتوبر 2025 ہے اور لاہور شہر دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار پایا ہے وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کا بھی کوئی وژن نہیں ہے کبھی انڈیا کی فضا کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے تو کبھی غیر سنجدہ بیانات کے ذریعے توجہ ہٹانے کی کوشش ، اصل ایشو اہلیت کا ہے صلاحیت کا ہے
حکومت کا کام صرف بیانات ، دعوے اور اعلانات نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر وقت ویڈیوز اور ٹک ٹاک پر ریلز پوسٹ کروانا ہوتا ہے پاکستان کے آئین کے مطابق عوام کی جانوں کی حفاظت حکومت کی اہم ذمہ داری ہے اس وقت لاہور ہی نہیں پورا پنجاب فضائی آلودگی کی سخت آزمائش میں ہے بیماریوں کا گراف بہت اوپر چلا گیا ہے کون ذمہ دار ہے ؟؟ عوام مجوری میں ماسک بھی لگا لیں گے ، اللہ تعالی سے دن رات بارش کی دعائیں بھی کر لیں گے سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت کیا کر رہی ہے وزیر ماحولیات صرف ٹھنڈے کمرے میں پریزنٹیشن دیں رہی ہیں یا پھر اپنی کوریج کے لیے میڈیا کے ذمہ داران کو کالز کر رہی ہیں !!! جو تکلیف عوام ہو رہی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟
نا اہلی کا سلسلہ ختم ہونے کی طرف ہی نہیں آ رہا ہے پانچ ہزار سے زائد بجٹ کے صوبے کی حکومت کو اتنا نالائق اور بے بس تو نہیں ہونا چاہیے
چلیے اب آ جائیے اس کے اہم اور آخری حصے کی طرف ، اس مسئلے کے حل کے لیے کیا ہونا چائیے ؟ کیا کرنا چاہیے ؟ میرے اور آپ کی انفرادی حیثیت میں کرنے کے کیا کام ہیں اور پنجاب حکومت کو کیا کرنا چائیے
اس حوالے سے بہترین مثال اور رول ماڈل چین کا بہترین شہر بیجنگ ہے جس کا فضائی آلودگی کا انڈکس 900 کے تاریخی ریکارڈ پر چلا گیا تھا لیکن آج وہ ایک بہترین صاف فضا کا شہر ہے لاہور شہر رقبے اور آبادی میں بیجنگ سے کچھ کم ہی ہے پھر وہ کونسے اقدامات تھے جس کی روشنی میں بیجنگ نے اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی
چین نے 40 سالہ “گرین بیلٹ” منصوبہ شروع کیا، جس کے تحت 350 کروڑ سے زیادہ درخت لگائے گئے۔ بیجنگ اور دوسرے شہروں کے گرد “Forest Shields” بنائے گئے تاکہ ہوا کو صاف کیا جا سکے۔
لیکن یہاں لاہور شہر اور اس کے قریبی واقعہ اضلاع میں درخت مسلسل کم ہو رہے ہیں پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز ہوں یا دیگر منصوبے یہ سب درختوں میں کمی کا باعث ہیں کچھ دن پہلے پنجاب حکومت کی طرف سے ایک رپورٹ جاری ہوئی جس میں اس سال پنجاب پانچ لاکھ پودے لگانے کا ہدف تھا وہ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا ، محترمہ مریم اورنگزیب صاحبہ اس کی وزیر ہیں یہ ان کی دلچسپی اور کارکردگی ہے میں اگر کسی کام کو کرنا ہو تو بہت آسانی سے رزلٹ حاصل کیا جا سکتا ہے
اس حوالے سے کچھ اقدامات یہ ہو سکتے ہیں
آگاہی مہم
میڈیا پر 360 ڈگری مسلسل کمپین ہو
سال 2024 میں پنجاب میں تقریباً 2,694,281 طلبہ و طالبات نے میٹرک (دسویں جماعت) کا امتحان دیا امتحان کے آغاز یا اختتام پر کسی ایک دن پودہ لگانا ڈیٹ شیٹ کا حصہ ہو اسی طرح سرکاری اور غیر سرکاری تمام سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز میں فائنل رزلٹ ایک پودہ لگانے سے مشروط کیا جا سکتا ہے ۔
اضافی مارکس یا سرٹیفیکیٹ دیے جائیں
اس طرح لاکھوں پودے ایک سال میں لگ سکے گے۔
سرکاری ، بنجر زمینوں پر بڑے پیمانے پر پھل دار اور کار آمد لکڑی والے درختوں کی شجر کاری کی جائے جو بہترین آمدن کا بھی ذریعہ ہوں
حکومتی سطح پر روڈ سائیڈ، ریلوے لائنوں ،پارکوں ، ہسپتالوں میں ایک سال میں لاکھوں پودے لگائے جا سکتے ہیں مقامی درختوں جیسے نیم، شہتوت، املتاس، کچنار، پیپل، املتھ وغیرہ کو ترجیح دی جائے ۔یہ فضا کے لیے بہتر ہیں
آج سے دو عشرے پہلے ہر روڈ کی دونوں طرف درختوں کا بہت خوب صورت انتظام موجود رہ بھی چکا ہے
نئی ہاؤسنگ اسکیموں کو NOC دینے سے پہلے شجر کاری پلان مانگا جائے۔
ہر تین سے پانچ مرلے پر دو پودے (گملے یا زمین میں )اور 10 مرلے کے پلاٹ پر کم از کم 4 درخت لازمی ہوں۔
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو “Green Roof” یا “Vertical Garden” پالیسی دینا
محکمہ جنگلات “Miyawaki Forests” (جاپانی تیز رفتار جنگلات) طرز پر منصوبے شروع کرے
فصلوں کے درمیان درختوں کی قطاریں لگانے کی ترغیب دی جائے۔
حکومت درخت لگانے والے کسانوں کو کاربن کریڈٹ یا ٹیکس ریلیف دے سکتی ہے۔
دیہی علاقوں میں مفت پودوں کی تقسیم کے مراکز قائم کیے جائیں
مساجد کے ذریعے شجر کاری کی اخلاقی و مذہبی اہمیت اجاگر کی جائے
گھر کے جتنے افراد ہیں کم ازکم اتنے پودے اور درخت لگانا ضروری قرار دیا جائے
ایپ کے ذریعے اس کی مانیٹرنگ کی جا سکتی
فیکٹریاں کوئلے کی بجائے قدرتی گیس یا صاف ایندھن پر منتقل کی جائیں
پرانی گاڑیاں جب تک معیار پر پوری نہیں اتراتی ان کو روڈ سے ہٹایا جائے
الیکڑک کار ، بائیک کی حوصلہ افزائی کی جائے
ہر فیکٹری کے لیے ریئل ٹائم ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم لازمی کیا گیا۔
جو فیکٹری ماحولیاتی معیار پر پوری نہ اترے، اس پر بھاری جرمانے یا بندش۔
پبلک انسپیکشن ٹیمیں بنانی چائیے جو عوامی شکایات پر کارروائی کرتی ہوں
سستی، آرام دہ، تیز پبلک ٹرانسپورٹ تاکہ زیادہ لوگ اپنی گاڑی کی بجائے اس کو ترجیح دیں
سائیکلنگ کلچر کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے
چین کی طرز پر Initiative” کے تحت ہر سال کے لیے آلودگی کم کرنے کا ہدف مقرر کیا جائے۔



