سپیشل رپورٹسیاسیات

وزیراعظم کی جانب سے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی توثیق، سیاسی و سماجی حلقوں کا شدید ردِعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کو غزہ کے لیے 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس میں جنگ بندی، یرغمالیوں کا تبادلہ، عسکریت پسندی کے خاتمے اور ایک عبوری حکومتی ڈھانچے کا اعلان کیا گیا ہے۔

دونوں رہنماؤں نے خبردار کیا کہ اگر فلسطینی تنظیم حماس نے یہ معاہدہ قبول نہ کیا تو اسرائیل ’کام مکمل‘ کر دے گا، اہم مسلم ممالک نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے جبکہ یورپی اتحادیوں نے بھی حماس پر زور دیا ہے کہ وہ اس کو قبول کرے۔

ٹرمپ کی جانب سے اس منصوبے کے اعلان کے وقت پاکستان کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا گیا، اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس 20 نکاتی منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا، انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

وزیراعظم کے بیان پر ملک بھر میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے، سیاستدانوں، ماہرین، صحافیوں اور کارکنوں نے اسے ’سرنڈر‘ قرار دیا۔

جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ان کی جماعت وزیرِاعظم کے بیان کو یکسر مسترد کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں واضح ہے کہ اگر کسی قوم کی زمین پر قبضہ ہو تو اسے مسلح جدوجہد کا حق حاصل ہے، اور کوئی طاقت اسے زبردستی اس حق سے محروم نہیں کر سکتی، 66 ہزار فلسطینی شہدا کی لاشوں پر قائم کسی نام نہاد امن منصوبے کی تعریف کرنا دراصل ظالموں کا ساتھ دینا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستانی قوم کی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی فرد کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان بولنے کی جرات کر سکتا ہے؟‘۔

مصنف اور سابق سفارتکار عبدالباسط نے کہا کہ یہ مسلم دنیا کی مکمل پسپائی ہے، انہوں نے دارالحکومت مشرقی بیت المقدس پر مشتمل فلسطینی ریاست کے قیام کا ذکر تک نہیں کیا۔

انہوں نے کہاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر ابراہم معاہدوں میں شامل ہونا پاکستان کے لیے ایک سنگین غلطی ہوگی۔

واضح رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں طے پانے والے ابراہام معاہدوں کے تحت 4 مسلم اکثریتی ممالک نے امریکا کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجا ناصر نے اس منصوبے کو ’ناقابلِ قبول اور فلسطینی عوام کے حقوق سے انکار‘ قرار دیا، ان کے مطابق یہ خفیہ طور پر تیار کردہ امریکی منصوبہ اسرائیلی مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور فلسطینی عوام کی شمولیت کو نظرانداز کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کھلی بات چیت کے بغیر تیار کیا گیا یہ خفیہ منصوبہ فلسطینیوں کو باہر رکھتے ہوئے امریکی مرکزیت پر مبنی حل مسلط کرتا ہے جو فلسطینیوں کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے اسرائیلی مفادات کو ترجیح دیتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ میں فلسطینی عوام کی اہم آوازوں کو نظرانداز اور عوامی حمایت کو مدنظر رکھے بغیر حماس کی تحلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے، یہ معاہدہ فلسطینی ریاست کے قیام کے معاملے پر مبہم ہے، اس کے علاوہ اس نے مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت اور غزہ کے انسانی بحران جیسے اہم مسائل کو بھی نظرانداز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’فلسطینی عوام اور تمام شراکت داروں کی بامعنی شمولیت کے بغیر کوئی بھی حل کامیاب نہیں ہوسکتا، واشنگٹن کی طرف سے اوپر سے مسلط کیا گیا کوئی حکم کامیاب نہیں ہوسکتا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی اس منصوبے کی ’جلدبازی میں حمایت نہ صرف فلسطینی کاز بلکہ پاکستان کی تاریخی یکجہتی سے غداری اور حیران کن ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فلسطینی کاز سے گہری جذباتی وابستگی رکھنے والے پاکستانی عوام کو اعتماد میں لیے بغیر امریکی منصوبے کی حمایت کرنا، دراصل اسی کاز کو نقصان پہنچانا ہے‘۔

انہوں نے کہاکہ فلسطینی عوام کی امنگوں پر مشتمل ایک شفاف اور جامع امن عمل ہی امن لا سکتا ہے، کوئی ایسا منصوبہ نہیں جو امن کے نام پر قبضے کو دوام دے۔

انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری نے کہا کہ پاکستان میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس پر مکمل اتفاق ہے اور وہ ہے مسئلہ فلسطین، انہوں نے کہا کہ صہیونیوں کے غلام اور ان کے آقاؤں کو پاکستانی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔

مصنفہ اور سماجی کارکن فاطمہ بھٹو نے کہا کہ ان کا پاکستانی پاسپورٹ انہیں اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ وہ جس ملک سے تعلق رکھتی ہیں اس پر فلسطینی عوام کے لیے ایک ’فرض‘ عائد ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام دو ریاستی سرنڈر کو کبھی قبول نہیں کریں گے، دنیا میں صرف ایک فلسطین ہے اور اس پر اسرائیل قابض ہے، جو ایک مجرمانہ اور نسل کش ریاست ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’جب ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کا اسرائیل کے ہاتھوں براہ راست نشر کیا جانے والا ہولوکاسٹ جاری ہے، ایسے وقت میں معمول کے تعلقات کی بات کرنا ایک سنگین غداری ہے، پاکستان کیوں وجود میں آیا؟ یہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ایک ریاست ہے، اسے ایسا ہی کرنا چاہیے‘۔

صحافی طلعت حسین نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت فلسطینی ریاست نہیں بنے گی، غزہ میں فلسطینی اتھارٹی نہیں ہوگی، اور حماس کو ختم کرنے کے بعد نیتن یاہو کو ’امن کا علمبردار‘ بنا کر پیش کیا جائے گا جبکہ ہزاروں فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔

صحافی ضرار کھوڑو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغامات کے ایک سلسلے میں کہا کہ ’ٹرمپ نے ایک جنگی مجرم کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک ایسا ’منصوبہ‘ پیش کیا ہے جو کبھی کارگر نہیں ہوسکتا اور جسے اسرائیل خود ہی کچھ عرصے میں سبوتاژ کر دے گا، اور اس کا الزام فلسطینیوں پر ڈال دے گا‘۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ زیادہ تر ممالک ہمیشہ سے سرکاری موقف دو ریاستی حل کے حق میں رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پورا منصوبہ غالباً اسرائیل کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے اور فلسطینیوں کے غصے کا رخ دوسری جانب موڑنے کی کوشش ہے، ’ایسے کسی بھی منصوبے سے دور رہنا چاہیے کیونکہ زمینی حقائق اور اسرائیل کی نسل کُش فطرت واضح ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’چاہے کوئی بھی ’ترغیبات‘ ہوں، حکومتِ پاکستان کو اسرائیل کی پردہ پوشی یا ایسی سیکیورٹی اسکیم میں شامل ہونے سے باز رہنا چاہیے جو فلسطینیوں پر مزید جبر کے مترادف ہو، یہ سب پاکستانیوں کے لیے بالکل ناقابلِ قبول ہوگا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ابھی تک حماس یا کسی اور فلسطینی گروپ نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا، ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل ہمیشہ ناممکن شرائط رکھتا ہے تاکہ انہیں مسترد کیا جائے اور پھر وہ اپنی نسل کُش ایجنڈے پر عمل کر سکے، یہ نیا ’منصوبہ‘ بھی شاید اسی انجام کو پہنچے گا‘۔

فعال رہنما عمار علی جان نے وزیرِاعظم کی پوسٹ پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ’جب صہیونی ادارہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہو تو ’امن‘ کی بات کرنا شرمناک ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

Back to top button