
حوثی انصار اللہ گروپ سے وابستہ المسیرہ ٹی وی نے منگل کو یہ خبر نشر کی ہے کہ یمن کے دارالحکومت صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو علاقہ خالی کرنے کے اسرائیلی احکامات کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی فوج نے اس فضائی اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔
یمنی دارالحکومت میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگار نے متعدد دھماکوں کی آوازیں سننے کی اطلاع دی ہے۔
اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے خبر نشر کی ہے کہ ’حوثیوں کے قریبی دو ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ صنعا ایئرپورٹ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔‘
یمن میں اہداف پر اسرائیلی فضائی حملوں کے ایک دن بعد اسرائیلی فوج نے صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاقے میں موجود آبادی سے یہ علاقہ فوری طور پر خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے اتوار کو تل ابیب کے بن گوریون ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کے جواب میں یمنی انصار اللہ گروپ کے خلاف ’کارروائی‘ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
اسرائیلی فوج نے پیر کے روز کہا کہ یہ حملے ’حوثی ملیشیا‘ کے زیر استعمال فوجی اور اقتصادی انفراسٹرکچر پر کیے گئے، جس میں حدیدہ کی بندرگاہ میں ان مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جو ’حوثیوں کے لیے فنڈنگ کا ایک ذریعہ ہیں اور ان پر ایرانی ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے بھی استعمال ہونے کا شبہ ہے۔‘
فوج نے تصدیق کی کہ حدیدہ کے مشرق میں بجل سیمنٹ فیکٹری پر بمباری کی گئی۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق یہ فیکٹری حوثیوں کے فوجی انفراسٹرکچر بشمول سرنگ کی تعمیر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اسرائیل نے زور دے کر کہا کہ یہ کارروائی اس کے شہریوں کو لاحق کسی بھی خطرے کے خلاف اس کی ’ڈیٹرنس پالیسی‘ کا حصہ ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ حوثی اسرائیل کو نشانہ بنانے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایران کی مالی اور لاجسٹک مدد کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہ حملے اسرائیل سے تقریباً 2,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوئے، جو اسرائیلی فوج کی دور دراز کے خطرات تک پہنچنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ریاست اور اس کی آبادی کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
اسرائیل کے چینل 12 نے ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اسرائیلی فوج یمن میں اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے‘ جبکہ والہ ویب سائٹ نے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے کہا ہے کہ ’یمن پر اسرائیلی حملے امریکہ کے ساتھ مل کر کیے گئے۔‘
یمن میں حوثیوں سے وابستہ المسیرہ ٹی وی نے خبر نشر کی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اسی گورنری کے علاقے بجیل میں ایک سیمنٹ فیکٹری کو نشانہ بنانے کے علاوہ حدیدہ کی بندرگاہ کو چھ فضائی حملوں سے نشانہ بنایا۔
حوثی وزارت صحت کے ترجمان انیس الاصباحی نے اعلان کیا کہ بجل پر حملے میں 21 افراد زخمی ہوئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جہاں اسرائیل نے فضائی حملوں کی تصدیق کی ہے تو وہیں ایک امریکی اہلکار نے اس میں امریکہ کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
اس سے قبل حوثیوں سے وابستہ یمنی خبر رساں ادارے سبا نے دارالحکومت صنعا پر فضائی حملوں کی اطلاع دی تھی، جس میں دو امریکی فضائی حملے بھی شامل تھے، جن میں سے ایک میں صنعا کی العربین سٹریٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا اور دوسرے میں ایئرپورٹ سٹریٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
سبا نے حوثی حکومت کی وزارت صحت کے حوالے سے کہا ہے کہ اس میں 16 افراد زخمی ہوئے ہیں جسے اس نے ’دارالحکومت صنعا پر امریکی جارحیت‘ قرار دیا ہے۔
ایک اسرائیلی اخبار نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فضائیہ نے یمن میں متعدد مقامات پر ’50 بموں اور میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے‘ حملہ کیا۔
ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار نے اسرائیل کے چینل 13 کو بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے یمن پر شروع کیا گیا حملہ اسرائیلی فوج کی طرف سے کیے گئے سابقہ حملوں سے ملتا جلتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو امید نہیں ہے کہ اس حملے کے نتیجے میں یمن سے میزائل داغنے کا سلسلہ رک جائے گا۔
یمن میں حوثی گروپ نے ایک بیلسٹک میزائل داغنے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس نے تل ابیب کے بین گوریون ہوائی اڈے کے آس پاس کو نشانہ بنایا۔
اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے ایک ویڈیو میں امریکہ کے ساتھ مل کر یمنی گروپ کے خلاف جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ماضی میں حوثیوں کو نشانہ بنا چکا ہے اور وہ انھیں دوبارہ نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
نیتن یاہو کے بیانات کے جواب میں حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ ساری نے اتوار کی شام ایک بیان میں اعلان کیا کہ ’اسرائیلی دشمن پر بار بار ہوائی اڈوں، خاص طور پر بین گوریون ہوائی اڈے کو نشانہ بنا کر ایک جامع فضائی معاصرہ کر لیا گیا ہے۔‘ بین الاقوامی ہوائی کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی ہوائی اڈوں پر تمام پروازیں منسوخ کر دیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکی فوج مارچ کے وسط سے یمن میں حوثی گروپ کے خلاف تقریباً روزانہ حملے کر رہی ہے، جس میں ملک میں 1,000 سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔