
مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس کی سماعت سے پہلے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا نظرثانی کے اسکوپ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نظر ثانی کے اسکوپ سے متعلق فیصلہ جاری کیا ہے۔
فیصلہ بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی آرٹیکل 181 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے۔
فیصلے کے مطابق نظرثانی کے لیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے، محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔
نظرثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہوچکا، نکتہ دوبارہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نظرثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظر بھی شامل ہوسکتا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں، ان زیر التوا کیسز میں بڑا حصہ نظرثانی درخواستوں کا بھی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ من گھڑت قسم کی نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت بھی جاری ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما کنول شوز کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔