بین الاقوامیٹیکنالوجیسائنس

سائبر حملے سے یورپی ممالک کے ایئرپورٹس پر افراتفری، پروازوں میں تاخیر سے مسافر مشکلات کا شکار

یورپ کے بڑے ایئرپورٹس سائبر حملے کی زد میں آگئے جس کے باعث مسافر شدید مشکلات اور پریشانی کا شکار ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق چیک اِن اور بورڈنگ سسٹمز فراہم کرنے والے ایک ادارے پر سائبر حملے کے باعث یورپ کے کئی بڑے ہوائی اڈے، بشمول لندن کا ہیتھرو ایئرپورٹ بھی متاثر ہوئے ہیں، اس دوران کئی پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں، جب کہ کچھ منسوخ بھی کی گئیں۔

ہیتھرو ایئرپورٹ نے اس حوالے سے بتایا کہ کولنز ایرو اسپیس، جو دنیا بھر کے کئی ہوائی اڈوں پر مختلف ایئرلائنز کو یہ سسٹمز فراہم کرتا ہے، ایک تکنیکی مسئلے سے دوچار ہے، جس کے باعث سفر کرنے کے خواہشمند افراد کو ممکنہ تاخیر برداشت کرنی پڑ سکتی ہے۔

برسلز ایئرپورٹ اور برلن ایئرپورٹ نے بھی الگ الگ بیانات میں تصدیق کی کہ وہ سائبر حملے سے متاثر ہوئے ہیں۔

کولنز ایرو اسپیس کی پیرنٹ کمپنی آر ٹی ایکس (آر ٹی ایکس) نے کہا کہ اسے مخصوص ہوائی اڈوں پر اپنے سافٹ ویئر میں سائبر حملے کے بعد مسائل کا سامنا ہے، تاہم ادارے نے اُن ہوائی اڈوں کے نام ظاہر نہیں کیے۔

کچھ گھنٹوں بعد ڈبلن ایئرپورٹ نے بھی معمولی اثرات کی تصدیق کی، جب کہ کارک ایئرپورٹ، جو آئرلینڈ کا دوسرا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے، وہ بھی متاثر ہوا۔

آر ٹی ایکس نے ای میل کے ذریعے جاری بیان میں کہا کہ الیکٹرانک کسٹمر چیک اِن اور بیگیج ڈراپ سائبر حملے سے متاثر ہیں، جب کہ مینول چیک اِن کے ذریعے رکاوٹ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ہیتھرو، برلن اور برسلز ایئرپورٹس پر 29 پروازیں منسوخ ہوئیں، مجموعی طور پر ہفتے کے روز ہیتھرو سے 651، برسلز سے 228 اور برلن سے 226 پروازوں کی روانگی طے تھی۔

یہ واقعہ دنیا بھر میں حکومتوں اور کمپنیوں کو نشانہ بنانے والے بڑھتے ہوئے پیچیدہ سائبر اور رینسم ویئر حملوں کی تازہ مثال ہے، جنہوں نے ہیلتھ کیئر اور دفاع سے لے کر ریٹیل اور آٹو انڈسٹری تک کو متاثر کیا ہے۔

سائبر سیکیورٹی کمپنی نائم وی پی این کے چیف ڈجیٹل آفیسر راب جارڈن نے کہا کہ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب اہم انفراسٹرکچر تیسرے فریق پر انحصار کرے تو وہ کتنا کمزور ہو سکتا ہے۔

ان کے مطابق اب ہیکرز صرف مجرم نہیں رہے بلکہ دشمن ممالک کی جانب سے یورپ کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں اور سپلائی چینز کو انتشار پھیلانے کا آسان ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

Back to top button