دنیا

چین سے درآمد شدہ 260 میزائلوں کے فیول کا کیمیکل ایرانی بندرگاہ پر تباہ

ایران نے خلیج فارس کے کنارے واقع اپنی مرکزی بحری بندرگاہ، شہید رجائی پورٹ، پر ایک بڑے دھماکے کی تصدیق کی ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 8 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 750 سے زائد زخمی ہو گئے۔
حکام نے ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر دھماکے کی وجہ بندرگاہ پر ذخیرہ شدہ سوڈیم پرکلوریٹ کے نامناسب انتظام کو قرار دیا ہے یہ وہ انتہائی حساس کیمیکل ہے جو بالخصوص بیلسٹک میزائلوں کے ایندھن میں استعمال ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ سوڈیم پرکلوریٹ رواں سال کے اوائل میں ایران کے دو کارگو جہازوں، گلبون اور جیران، کے ذریعے چین سے ایران لایا گیا تھا۔
اس کیمیکل کی مقدار تقریباً ایک ہزار ٹن بتائی جاتی ہے، جسے اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے ذیلی ادارے “سیلف سفی شنسی جہاد آرگنائزیشن” (SSJO) کے لیے مخصوص کیا گیا تھا — یہ ادارہ ایران کے میزائل پروگرام کی نگرانی کرتا ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس مقدار سے خیبر شکن یا حاج قاسم جیسے 260 درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے لیے ٹھوس ایندھن تیار کیا جا سکتا تھا۔دھماکے کے نتیجے میں شہید رجائی بندرگاہ کی سرگرمیاں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں، اور ہنگامی ٹیمیں متاثرہ مقام پر تعینات کر دی گئی ہیں تاکہ ڈھانچوں کے نقصانات اور کیمیکل خطرات ک جائزہ لیا جا سکے۔ ایرانی حکام نے اب تک کسی قسم کی بیرونی مداخلت یا تخریب کاری کے امکان کو مسترد کیا ہے، اور داخلی انتظامی غفلت کو بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔یہ واقعہ ایک ایسے حساس وقت پر پیش آیا ہے جب عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات جاری ہیں۔تاہم ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں جو اس دھماکے کو جاری سفارتی سرگرمیوں یا کسی غیر ملکی فریق سے جوڑتے ہوں۔چین گزشتہ دو دہائیوں سے ایران کو سوڈیم پرکلوریٹ فراہم کرتا رہا ہے۔اگرچہ یہ کیمیکل براہ راست عالمی پابندیوں کے دائرے میں نہیں آتا، لیکن اس کے میزائل ایندھن میں استعمال نے مغربی ممالک میں گہری تشویش پیدا کر رکھی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ حساس دفاعی مواد کی یہ فراہمی ایران اور چین کے درمیان تیزی سے گہرے ہوتے سٹریٹجک تعاون و تعلقات کی گہرائی کو بیان کرتی ہے۔ایرانی حکام نے اعلان کیا ہے کہ دھماکے کی مزید وجوہات اور ممکنہ غفلتوں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں، اور پیش رفت کے ساتھ مزید تفصیلات جاری کی جائیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button