
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جوابی ٹیرف کے چینی اقدام پر ردعمل دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’چین نے غلط قدم اٹھایا۔ وہ گھبرا گیا ہے۔ وہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔‘
امریکی سٹاک مارکیٹس میں گذشتہ روز کے بعد آج بھی مندی کا رجحان جاری ہے۔ جمعے کے روز ابتدائی طور پر نیزڈیک میں 3.3 فیصد، ایس اینڈ پی 500 میں 3.1 فیصد اور ڈو جونز میں 2.7 فیصد گراوٹ ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ وہ تین بڑی امریکی منڈیاں ہیں جن پر عالمی سطح پر نظر رکھی جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق نیزڈیک (وہ سٹاک مارکیٹ جہاں اکثر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت ہوتی ہے) میں دستمبر کی سب سے بلند سطح کے مقابلے 20 فیصد کم قدر پر ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔
ادھر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی کمپنیوں میں گذشتہ ماہ کے دوران 228000 نوکریاں بڑھی ہیں اور انھوں نے اس پر مثبت ردعمل دیا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے کہا کہ ’صدر نے امریکہ میں نوکریاں لانے کے لیے وہ اقدام اٹھائے وہ موثر رہے۔‘
دریں اثنا ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی ٹیرف پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ وہ ٹروتھ سوشل پر لکھتے ہیں کہ ’میں ان سرمایہ کاروں سے مخاطب ہوں جو امریکہ آتے ہیں اور بڑی رقوم کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ میری پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔‘
’یہ امیر ہونے کا بہترین وقت ہے، پہلے سے کہیں زیادہ امیر۔‘
عالمی کساد بازاری کے کیا امکانات ہیں؟
بی بی سی کی نائب اکنامکس ایڈیٹر دھارشنی ڈیوڈ کے مطابق بظاہر ایپل اور نائیکی جیسی بڑی کمپنیوں کے اربوں ڈالر مالیت کے شیئرز اچانک حذف ہوگئے ہیں جو اس چیز کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس معیشت کو بڑا نقصان پہنچا ہے جہاں سے وہ پنپ رہی تھیں۔
ویتنام اور کمبوڈیا جیسے ممالک نے حالیہ عرصے میں ثابت کیا کہ وہ سستے سامان کے لیے بہترین مقام ہیں۔ تاہم انھیں سب سے زیادہ معاشی نقصان ہونے کا امکان ہے۔
مگر ایسا نہیں کہ عالمی کساد بازاری یقینی ہے۔ عالمی معاشی کے عالمی نظام میں تجارت صرف ایک جزو ہیں۔
مگر اب چونکہ چین نے جوابی ٹیرف عائد کیے ہیں تو یقیناً بڑے ممالک اس سے اثرانداز ہوں گے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کئی ممالک کووڈ اور یوکرین جنگ کے نقصانات سے نمٹ رہے تھے۔