
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیسز ٹرانسفر کرنے پر نئی پیش رفت سامنے آئے ہے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے ایک سے دوسرے بینچ میں کیسز ٹرانسفر کرنے پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ میرا اصولی موقف ہے کوئی کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس انتظامی سائیڈ پر کوئی ایسا آرڈر نہیں کر سکتے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ سنگل بینچ کا کیس اٹھا کر ڈویژن بینچ میں لگا دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے واضح کیا کہ میرا اصولی موقف ہے کہ میں کوئی کیس ٹرانسفر نہیں کروں گا۔
واضح رہے کہ 3 روز قبل بھی دونوں ججز نے سنگل بینچ کے مقدمات اچانک ڈویژن بینچ کو منتقل کرنے پر اظہارِ حیرانی کیا تھا۔
پیر 7 اپریل کو جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی عدالت سے منتقل مقدمے پر جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی تھی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا تھا کہ سنگل بینچ کا کیس ڈویژن بینچ میں کس قانون کے تحت بھیجا جا سکتا ہے؟ فریقین کے وکلا نے یک زبان ہوکر عدالت کو جواب دیا کہ ہم سب بھی اسی پر پریشان ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا کہ قائم مقام چیف جسٹس کے آرڈر سے کیسز ڈویژن بینچ کو منتقل کیے گئے، کسی کو اس مخصوص اختیار سے متعلق معلوم ہے؟
وکیل نے کہا تھا کہ جسٹس ارباب طاہر کے پاس شاید کوئی کیس تھا تو انہوں نے ڈویژن بینچ بنانے کے لیے لکھا، جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے کہا کہ یہ تو کمیشن بنانے کی درخواست ہے، 21 ٹیکس مقدمات بھی اس کے ساتھ ٹرانسفر کر دیے گئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا کہ یہ کیس سنگل بینچ کے پاس ہے اور تفصیل سے سنا جا چکا ہے، قائم مقام چیف جسٹس کے کیس منتقل کرنے کے آرڈر میں کسی مخصوص قانونی شق کا حوالہ موجود نہیں، انتظامی کمیٹی کا بھی اس حوالے سے کوئی آرڈر موجود نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا کہ جسٹس بابر ستار اس سے متعلق ایک آرڈر پاس کر چکے، جس میں انہوں نے چیف جسٹس کے کیسز مقرر کرنے کے اختیارات سے متعلق لکھا، یہ کیس ایک سنگل بینچ تفصیل میں سن چکا ہے، بغیر کسی جواز کے کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنا مناسب نہیں۔
انہوں نے لکھا تھا کہ رجسٹرار آفس کیسز کو قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے رکھے، جبکہ چیف جسٹس ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت اپنے اختیارات کو مدنظر رکھ کر قانون کے مطابق آرڈر کریں، توقع ہے کہ مقدمات کی ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ بینچز کے سامنے جلد مقرر کیے جائیں گے۔