
جنیوا میں ہونے والے اجلاس سے قبل نیٹو کے 5 ممالک کی جانب سے بارودی سرنگوں کے استعمال پر پابندی کے معاہدے سے دستبرداری کے اقدام سے ماہرین کو تشویش لاحق ہے, جس کا مقصد دنیا کو بارودی سرنگوں سے پاک کرنے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا ہے کہ پولینڈ، لتھوانیا، لیٹویا، ایسٹونیا اور فن لینڈ کی جانب سے گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران اعلان کردہ فیصلے مسلح تنازعات میں شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک خطرناک دھچکا ہیں۔
پہلے 4 ممالک نے 18 مارچ کو ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ روس کی جارحیت (جس کا اظہار یوکرین پر اس کے مکمل حملے سے ہوتا ہے) نے انہیں 1997 کے اوٹاوا معاہدے سے دستبردارہونے کے لیے اقدامات شروع کرنے پر مجبور کیا، جس کا مقصد اہلکاروں کے خلاف بارودی سرنگوں کو ختم کرنا تھا، فن لینڈ نے بھی گزشتہ ہفتے اسی طرح کا اعلان کیا تھا۔
یہ اقدامات اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) اور جنیوا انٹرنیشنل سینٹر فار ہیومینیٹیرین ڈی مائننگ (جی آئی سی ایچ ڈی) کے زیر اہتمام بدھ سے جنیوا میں شروع ہونے والے 3 روزہ اجلاس سے قبل سامنے آئے ہیں۔
جی آئی سی ایچ ڈی کے سربراہ ٹوبیاس پرویٹیلی نے صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ یہ اجلاس ’چیلنجنگ ماحول‘ میں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو بارودی سرنگوں سے پاک کرنے میں دہائیوں سے ہونے والی پیش رفت خطرے میں ہے۔
یو این ایم اے ایس کے پالیسی اور وکالت کے سربراہ جیمز اسٹیپلز نے کہا کہ یوکرین سے لے کر میانمار، سوڈان اور شام تک تقریباً 60 ممالک یا علاقے دھماکا خیز ہتھیاروں سے متاثر ہیں اور لاکھوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر ان کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں۔