پنجاب کے ضلع قصور میں فارم ہاؤس پر چھاپہ اور مبینہ فحش رقص، لاؤڈ اسپیکر اور منشیات کے استعمال کے الزام میں 25 خواتین اور 30 مردوں کو گرفتار کرنے کے الزام میں ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) نے تھانہ مصطفی آباد کے 2 پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا۔
مصطفی آباد پولیس کو ہفتے کو اس وقت شرمناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب مقامی عدالت نے خواتین سمیت تمام 55 افراد کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمہ خارج کردیا۔
پولیس نے جمعہ کی رات پکی حویلی گاؤں کے قریب ایک فارم ہاؤس پر چھاپہ مارا، وہاں مبینہ ’ڈانس پارٹی‘ کے انعقاد پر 55 افراد کو گرفتار کر کے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔
بعد ازاں، ان کے خلاف سب انسپکٹر محمد صادق کی مدعیت میں امتناع (نفاذ کردہ حد) آرڈر 1979 کی دفعہ 3 اور 4، پنجاب پرہیبیشن آف شیشہ اسموکنگ ایکٹ 2014 کی دفعہ 6 (اے)، پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ 2015 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 292 اور 293 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ان ملزمان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، تاہم عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے مقدمہ خارج کر دیا۔
پولیس نے پریس ریلیز بھی جاری کی، جس میں 55 افراد کی گرفتاری اور پنڈال سے شیشہ، شراب اور ایک ساؤنڈ سسٹم برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ڈی پی او عیسیٰ خان نے صدر سرکل کے ایس ڈی پی او اور مصطفی آباد ایس ایچ او ثقلین بخاری کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی، جس نے فارم ہاؤس پر چھاپہ مارا، اس میں خواتین سمیت گرفتار افراد کی دھندلی تصاویر بھی شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے ملزمان کی رہائی اور کیس ختم کرنے کے حکم اور سوشل میڈیا پر ردعمل کے بعد پولیس نے اتوار کو تاثر بہتر کرنے کے لیے ایک اور پریس ریلیز جاری کی۔
پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ڈی پی او نے زیر حراست ملزمان کی ویڈیو جاری کرنے پر تفتیشی افسر محمد صادق اور محرر محمد شبیر کو معطل کر دیا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ پولیس نے مشتبہ افراد کی کوئی ویڈیو بنائی اور نہ ہی ’سرکاری طور‘ پر جاری کی۔
پریس ریلیز کے مطابق پولیس ہمیشہ شہریوں کی عزت نفس کو ایس او پیز کے مطابق اپنی اولین ترجیح رکھتی ہے۔
ڈی پی او نے ایس پی انویسٹی گیشن سے دو روز میں واقعہ کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔