
وزارت دفاع نے 20 روز قبل اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے دو بھائیوں کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ دونوں بھائی نا ہماری کسٹڈی میں ہیں نا ہم جانتے ہیں۔
دوسری جانب درخواست گزار کی وکیل ایمان مزاری نے کہا ہے کہ یہ ’نیلی وردی کے بس کی بات نہیں یہ خاکی وردی سے پوچھنا ہو گا۔‘
پیر کو صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی بازیابی کے لیے ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست کی سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی۔
آئی جی اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی عدالت کو بتایا ہے کہ لاپتہ نوجوانوں سیف الرحمن حیدر اور محمد علی کی فون سِم ایکٹیویٹی بہاولپور میں دیکھی گئی ہے۔
صحافی احمد نورانی کی والدہ نے اپنے بیٹوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پیٹیشن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منگل کی رات ایک بج کر پانچ منٹ پر ان کے دو بیٹوں کو بظاہر ملک کے دو خفیہ اداروں کے نامعلوم اہلکاروں نے اغوا کر لیا ہے۔
جسٹس انعام منہاس نے آئی جی اسلام آباد سے کہا کہ آپ کو کہا تھا خود تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔
اس کے جواب میں آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ’اسپیشل تحقیقاتی ٹیم میں نے بنائی تھی انھوں نے پوری کوشش کی ہے۔
اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’22 اور 23 مارچ بہاولپور اوچ شریف کی سم کی ایکٹیوٹی ملی ہے، ہماری ٹیم بہاولپور گئی ہم نے آئی جی پنجاب کو بھی بتایا کہ بہاولپور میں سم کی ایکٹیویٹی ملی ہے، اس وقت بھی اسلام آباد پولیس کی ٹیم بہاولپور موجود ہے، سندھ کے آئی جی کو بھی لکھا ہے۔ ایک ٹیم سندھ کی طرف بھی گئی ہے۔ دونوں بھائیوں کا تعلق بہاولپور سے ہے یہ بھی دیکھنا ہے یہ اغوا ہے۔‘
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ دونوں فون انہیں کے تھے، 19 سے 21 مارچ تک فون بند رہے ہیں 22 اور 23 مارچ کو سم ایکٹیوٹی رہی ہے۔‘
عدالت نے سوال کیا کہ الزام یہ ہے کہ دو بھائیوں کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا، ذمہ دار کون ہے، کاغذی رپورٹ نہیں پریکٹیکلی مجھے بتائیں آپ نے کیا کیا ہے؟
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ’اوچ شریف سمیت 4 علاقے ہیں، بہاولپور اور وہاڑی پولیس سے لوکیٹر بھی لیے ہیں، جن ٹیلی فون نمبرز پر رابطے ہوئے ہیں ہم ان کو بھی دیکھ رہے ہیں۔‘
جواب میں جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ میری ہدایت ہے بندے پیش کریں۔